اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ 31 جنوری 2017ء تک مالی سال 2016-17ء کے دوران 2557.39 ملین امریکی ڈالر غیر ملکی قرضہ حاصل کیا گیا ہے ٗ حکومت منصوبوں کی بہتر اور بروقت مکمل کر نے کی کوشش کررہی ہے ٗماضی میں کوئٹہ میں 10 ارب روپے واٹر سپلائی کیلئے دیئے گئے ٗ یہ رقم خرچ ہونے کا نام و نشان نہیں مل رہا ٗسی پیک کے ذریعے معدنی دولت کو بروئے کار لانے کیلئے اقدامات کئے
جارہے ہیں ٗ فاٹا میں جدید ماربل سٹی بن رہی ہے۔ پوری انڈسٹری میں نیا رجحان آئے گا۔جمعرات کووقفہ سوالات کے دور ان وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ مسابقتی کمیشن اپنے قانون کے مطابق کارروائی کرتا ہے‘ کئی جرمانے کئے گئے ہیں مگر لوگوں نے عدالتوں سے جاکر حکم امتناعی لے لئے ہیں۔ اس حوالے سے کئی کیس زیر التواء ہیں۔ کافی بڑی رقم ریکور کرنی ہے لیکن کیس عدالتوں میں ہیں۔ اس بارے میں اٹارنی جنرل سے بھی بات کی ہے تاکہ ان کیسوں پر کارروائی ہو سکے۔ آٹو موبائل انڈسٹری کا کیس بھی عدالت میں ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ مالی سال 2016-17ء کے دوران 31 جنوری 2017ء تک غیر ملکی اداروں سے 2557.39 ملین امریکی ڈالر غیر ملکی قرضہ لیا گیا ہے۔ 700 ملین ڈالر چینی بنک سے قرضہ لیا گیا ہے۔ چینی بنک سے جو قرضہ لیا گیا ہے وہ کمرشل بنک ہے اس لئے اس کی شرح سود زیادہ ہے۔اجلاس کے دور ان جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق وقفہ سوالات کے دوران موجود نہ تھے جس کی وجہ سے ان سے متعلقہ سوالات نہ لئے جاسکے۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر سراج الحق اپنا سوال کرنے کے لئے موجود نہ تھے۔ ان کی طرف سے پوچھے گئے دو سوالات وقفہ سوالات میں شامل تھے۔وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ اسلامی بنکنگ کو فروغ دینے کے لئے 2014ء میں ایم سی بی اور اسلامک بنک کو لائسنس دیا گیا ہے۔ ہر
بنک میں لاکر فراہم کرنا لازمی نہیں ہے۔ بزرگ شہریوں کو بنکوں میں عزت و احترام سے پیش آنے اور ان کے لئے الگ کاؤنٹرز مختص کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں۔سینیٹر محسن عزیز کے سوال پر وزیر قانون نے بتایا کہ نجکاری کمیشن کا 2016-17ء کے لئے سالانہ بجٹ 100587 ملین روپے ہے۔وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ وزارت میں مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن یونٹ کام کر رہا ہے جو منصوبوں کی مانیٹرنگ کرکے متعلقہ وزارتوں کو اپنی آبزرویشن سے آگاہ کرتا ہے۔ منصوبوں میں تاخیر کی وجہ ماضی میں ان منصوبوں کو انڈر فنڈ کرنا تھا۔ اس لئے تین سال کا منصوبہ دس سال میں مکمل ہوتا تھا۔ ماضی میں ٹوکن ایلوکیشن کے ساتھ منصوبے شروع کردیئے جاتے تھے۔ کئی منصوبے سفید ہاتھی بن چکے تھے جن کو ہم نے مکمل کیا۔ ان میں لواری ٹنل‘ کچھی کینال کا منصوبہ بھی شامل تھا جو رواں سال پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ منصوبوں کا سہ ماہی بنیادوں پر جائزہ لیا جاتا ہے جہاں کوئی لیپس ہے اس کو دیکھا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں اکثر جمہوریت اور مارشل لاء پر سیاسی بحث کی جاتی ہے لیکن مارشل لاء دور میں سول ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور ان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کو ہم بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منصوبوں کو بہتر اور بروقت مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر احسن اقبال نے بتایا کہ اس وقت ترقیاتی فنڈز پارلیمان کے ارکان کے کوٹے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کئے جارہے۔ کابینہ ڈویژن سے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب فراہم کرنے کو کہا جائے گا یا وزارت پارلیمانی امور اس کا جواب دیں گے۔ سپریم کورٹ نے ترقیاتی فنڈز پارلیمان کے ارکان کے ذریعے دینے پر پابندی لگائی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے ہدایت کی کہ اس سوال کا جواب کس نے دینا ہے اس بارے میں متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کرکے آگاہ کریں ورنہ سیکرٹری کابینہ کو نوٹس جاری کردوں گا۔
وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ صوبائی دارالحکومتوں میں سی پیک کے منصوبوں میں لاہور اورنج لائن میٹرو ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر پہلے سے کام جاری ہے اس لئے وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کوئٹہ کو کبھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے کوئٹہ کی واٹر سپلائی کے لئے دس ارب روپے دیئے۔ دس ارب تو کیا سو روپے لگنے کا بھی نام و نشان نہیں مل رہا۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے اب کوشش کر رہے ہیں کہ جو پیسہ لگے اس کا نتیجہ بھی برآمد ہو۔ پشاور میں گریٹر پشاور ریجن ماس ٹرانزٹ سسٹم‘ کراچی میں کراچی سرکلر ریلوے‘ کوئٹہ ماس ٹرانزٹ سسٹم‘ کوئٹہ واٹر سپلائی سکیم اور پورٹ قاسم الیکٹرک کمپنی اور پورٹ قاسم میں پاکستان سٹیل ملز کی زمین پر انڈسٹریل پارک کی ترقی کے منصوبے بھی ان منصوبوں میں شامل ہیں۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ 9 اکنامک زونز سی پیک روٹ پر قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ سی پیک کے ذریعے معدنی دولت کو بروئے کار لانے کیلئے کام کیا جارہا ہے۔ تھرکول کا منصوبہ بھی اس میں شامل ہے۔ 400 سال کی کوئلے کی ضرورت اس سے پوری ہو سکتی ہے۔ گوادر سے چترال تک ماربل کاریڈور ہے جس پر کام کیا جائے گا۔ فاٹا میں جدید ماربل سٹی بن رہی ہے۔ پوری انڈسٹری میں نیا رجحان آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے رشکئی اکنامک زونز میں فروٹ پراسیسنگ کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن میں رقم نہیں لگائی گئی۔ حکومتی اقدامات سے اب دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ 66 سالوں میں 16/17 ہزار میگاواٹ کی گنجائش تھی ہم نے بجلی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اتنی سرمایہ کاری پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے گلوبل انڈیکسنگ آرٹن کیپٹل پاسپورٹ انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کا درجہ دوسرے آخری درجے پر رکھے جانے کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لئے توجہ مبذول نوٹس پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاسپورٹ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ صرف افغانستان کا پاسپورٹ درجے میں ہمارے بعد آتا ہے۔ توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ پرائیویٹ کمپنی نے پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی کے حوالے سے جو سروے کیا ہے اس میں ہمارا نمبر بہت نچلے درجے پر اس لئے ہے کیونکہ ہم کئی سالوں سے دہشتگردی کی صورتحال کا شکار رہے ہیں لیکن ملکی معاملات اب بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ جوں جوں پاکستان کے حالات بہتر ہوتے جائیں گے ہمارے پاسپورٹ کی قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ت
حریری جواب میں وزارت برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ 2 لاکھ 23ہزار 465 انجینئرز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں پیشہ ور انجینئرز (پی ای) کی تعداد 90 ہزار 58 ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ رجسٹرڈ نیوکلیئر پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 5 ہے۔ سب سے زیادہ تعداد الیکٹریکل ‘ کیمیکل اور کمپیوٹر انجینئرز کی ہے۔ ایروناٹیکل انجینئرنگ کے پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 1037 ‘ ایگریکلچرلانجینئرنگ کے پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 2445‘ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کے پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 156 ‘ کیمیکل انجینئرنگ کے پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 5509‘ سول انجینئرنگ کے پروفیشل انجینئرز کی تعداد 25274 ‘ کمپیوٹر انجینئرنگ کے پروفیشل انجینئرز کی تعداد 3198 ‘ الیکٹریکل
انجینئرنگ کے پروفیشنل انجینئرز کی تعداد 21126‘ الیکٹرونکس کے 7 ہزار 597 ہیں جبکہ توانائی کے شعبے میں رجسٹرڈ انجینئرز دس ہیں لیکن پروفیشنل انجینئرز کی کیٹگری میں کوئی بھی رجسٹرڈ نہیں۔ انجینئرنگ سائنسز میں صرف چار اور انوائرمنٹ انجینئرنگ میں صرف دو پی ای رجسٹرڈ ہیں۔ انڈسٹریل انجینئرنگ میں 562 ‘ مکینیکل انجینئرنگ میں 18946 ‘ میکاٹرونکس انجینئرنگ میں 53 ‘ میٹلرجی میں 1804 ‘ مائننگ انجینئرنگ میں 1052‘ پٹرولیم اینڈ گیس میں 671‘ ٹیلی کمیونیکیشن میں 382‘ ٹیکسٹائل میں 223‘ اربن میں 7 اور ٹرانسپورٹ انجینئرنگ میں صرف ایک پی ای رجسٹرڈ ہے۔ پولیمر انجینئرنگ کے شعبے میں کوئی پی ای رجسٹرڈ نہیں۔