اسلام آباد(جاوید چوہدری)پاکستان میں چھٹی مردم شماری کاآغازہوچکاہے اگر آپ ایک خاندان کے سربراہ ہیں‘ آپ خاندان کی پرورش‘ خاندان کی نگہداشت‘ خاندان کی حفاظت اور خاندان کی ترقی کے ذمہ دار ہیں لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ کے خاندان کے افراد کتنے ہیں‘ گھر کے اندر بچے کتنے ہیں‘ جوان کتنے ہیں‘ بوڑھے کتنے ہیں‘ معذور کتنے ہیں‘ خواتین کتنی ہیں اور مرد کتنے ہیں‘ آپ کے خاندان کو مکان کتنا بڑا چاہیے‘ آپ
کو روزانہ کتنی خوراک درکار ہے‘ آپ کو پانی‘ گیس اور بجلی کتنی چاہیے اور آپ کو خاندان کی تعلیم‘ صحت اور کپڑے لتے کیلئے کتنی رقم چاہیے‘ کیا آپ ان معلومات کے بغیر اپنے خاندان کی ترقی‘ حفاظت‘ نگہداشت اور پرورش کی ذمہ داری پوری کر سکیں گے‘ آپ کا جواب یقینا ناں میں ہو گا‘ ملک بھی خاندانوں کی طرح ہوتے ہیں‘ آپ کو جب تک ملک میںموجود لوگوں کی تعداد‘ ایج گروپ‘ ان کی صلاحیتوںان کے تعلیمی معیار اوران کی ضرورتوں کا اندازہ نہیں ہو گا‘ آپ اس وقت تک ملک کی ترقی‘ حفاظت‘ نگہداشت اور پرورش کا مناسب بندوبست نہیں کرسکیں گے لیکن ہم ایک ایسی بدقسمت قوم ہیں جس کو 19 برس سے یہ معلوم نہیں ہے کہ ہم ہیں کتنے‘ ہم میں بچے کتنے ہیں‘ جوان کتنے ہیں‘ بزرگ کتنے ہیں‘ عورتیں کتنی ہیں‘ مرد کتنے ہیں‘ شہری کتنے ہیں‘ دیہاتی کتنے ہیں‘ تعلیم یافتہ کتنے ہیں‘ جاہل کتنے ہیں‘ صحت مند کتنے ہیں‘ بیمار کتنے ہیں‘ بے روزگار کتنے ہیں‘ ہم میں آئی ڈی پیز کتنے ہیں‘ غیر ملکی کتنے ہیں‘ ہوم لیس کتنے ہیں اور اپنے گھر میں رہنے والے کتنے ہیں‘ ووٹر کتنے ہیں‘ شناختی کارڈ ہولڈر کتنے ہیں اور ٹیکس پیئرز کتنے ہیں‘ ہم 19 سال سے یہ حقائق نہیں جانتے‘ اللہ اللہ کر کے سپریم کورٹ کے دبائو کی وجہ سے آج حکومت نے تریسٹھ اضلاع میں مردم شماری شروع کی‘ یہ پہلا فیز ہے‘ یہ فیز 15 اپریل تک جاری رہے گا‘ اس فیز میںپنجاب کے 16‘
سندھ کے 8‘ کے پی کےکے 7 ‘فاٹا کی سات ایجنسیوں‘ بلوچستان کے 15 اور کشمیر اور گلگت بلتستان کے پانچ پانچ اضلاع کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا‘ دوسرا فیز 25 اپریل سے 25 مئی تک چلے گا اور اس میں ستاسی اضلاع کا ڈیٹا جمع کیا جائے گایوں ہمیں 19 برس بعد پتہ چلے گا ہم کتنے ہیں اور کیا چاہیے!۔لیکن ملک کے تین چھوٹے صوبے اور اپوزیشن جماعتیں مردم شماری کےاس عمل پر خدشات کا شکار ہیں‘ ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے مردم شماری کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن تک دائر کر رکھی ہے‘ ایم کیو ایم نےبھی مردم شماری پر سوالات اٹھائےہیں۔