اسلام آباد(جاویدچوہدری )عدیس ابابا ایتھوپیا کا دارالحکومت ہے‘ آبادی چالیس لاکھ ہے‘ یہ چالیس لاکھ لوگ روزانہ ایک ہزار ٹن‘ ماہانہ 25 ہزار ٹن اور سالانہ تین لاکھ ساٹھ ہزار ٹن کچرہ پیدا کرتے ہیں‘ حکومت نے شہر سے باہر 74 ایکڑ پر مشتمل ایک ڈمپنگ سائیٹ بنا رکھی ہے‘ دو دن قبل اس ڈمپنگ سائیٹ پر ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘ کوڑے کا یہ ڈھیر آبادی پر گر گیا‘ 48 لوگ کوڑے کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے‘ 70
زخمی ہو گئے جبکہ 28 لوگ ابھی تک مسنگ ہیں‘ آپ اس واقعے کو کراچی شہر سے ریلیٹ کر کے دیکھئے‘ کراچی کے شہری روزانہ 12 ہزار ٹن کچرہ پیدا کرتے ہیں‘ یہ کچرہ ماہانہ تین لاکھ 61 ہزار ٹن اور سالانہ تینتالیس لاکھ 20 ہزار ٹن بنتا ہے اور سندھ حکومت نے پچھلے چھ برسوں سے یہ کچرہ نہیں اٹھایا‘ اس کچرے کی وجہ سے کراچی کا شمار دنیا کے دس گندے ترین شہروں میں ہوتا ہے اوراس گندگی کی وجہ سے کراچی میں ہیپاٹائٹس‘ ٹی بی‘ معدے کے امراض‘ آنکھوں کے مرض اور جلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں‘ یہ گندگی پانی اور ہوا میں مل کر پورے شہر کو بھی بیمار کر رہی ہے اور سمندر میں مل کر دور دور تک آلودگی بھی پھیلا رہی ہے جبکہ کراچی کے دونوں سٹیک ہولڈرز پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کچرہ اٹھانے کی بجائے کیا کر رہے ہیں چنانچہ پہلے جہانگیر خان نام کے ایک شہری نےفکس اٹ کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور وزیراعلٰی سندھ کی رہائش گاہ کے سامنےکوڑا پھینک کر حکومت کا ضمیر جگانے کی کوشش کی لیکن حکومت نے جہانگیر خان کو دبا لیا‘ پھر جنید جمشیدمرحوم نے صفائی مہم شروع کی ‘ ان کا انتقال ہو گیا اور اب پاکستان کے سب سے بڑے رئیل سٹیٹ ٹائی کون‘ بزنس مین اور بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض نے یہ بیڑہاٹھا لیا‘ انہوں نے اپنے خرچ پر کراچی سےکوڑا اٹھانا شروع کر دیا اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کی
صفائی کی ۔ذمہ داری بزنس مین اٹھائیں تو حکومتیں کیا کریں گی‘ کیا یہ عدیس ابابا جیسی کسی ٹریجڈی کا انتظار کر رہی ہیں‘ اگر ہاں تو یاد رکھیں اگر کراچی کا کچرہ گر گیا یا اس میں آگ لگ گئی تو یہ دس بیس ہزارلوگوں کو نگل جائے گی‘یہ آگ پاکستان کی سب سے بڑی ٹریجڈی ثابت ہو گی‘ کیا حکومت اس کا انتظار کر رہی ہے اور جو حکومتیں کچرہ نہیں اٹھا سکتیں وہ عوام کے باقی مسائل کیسے حل کریں گی۔