اسلام آباد(جاوید چوہدری )آگ کے بارے میں کہتے ہیں یہ اگر چولہے میں رہے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ اگر باہر آ جائے تو یہ دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہوجاتی ہے‘ اختلاف بھی اگر پارلیمنٹ میں ہو‘ مجلس میں ہو یا پھر بیٹھک میں ہو تو یہ نعمت ہوتا ہےلیکن اگر یہ ایک بار پارلیمنٹ سے باہر آ جائے‘ یہ مجلس کا دائرہ توڑ کر باہر نکل آئے یا پھر یہ بیٹھک کا دروازہ عبور کر جائے تو یہ ایک ایسی جنگ میں
تبدیل ہو جاتا ہے جو دو‘ چار‘ پانچ دس ہزار لاشیں گرائے بغیر ختم نہیں ہوتا اور ہمارے پارلیمنٹیرینز بھی آج کل یہی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ آگ کو چولہے سے باہر لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ پارلیمنٹ کے اختلاف کو سڑک پر دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش انتہائی خطرناک ہے‘ آپ کو یاد ہو گا 26 جنوری کو قومی اسمبلی میں شہریار آفریدی اور مراد سعید کا پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان کے ساتھ جھگڑا ہو گیا تھا‘ یہ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ ن لیگ کے ایک ایم این اے نے شہریار آفریدی کو تھپڑ مار دیا‘ وہ معاملہ بڑی مشکل سے کنٹرول کیا گیا‘ آج اس سے بھی زیادہ خطرناک اور افسوس ناک واقعہ پیش آ گیا‘ آج ن لیگ کے ایم این اے میاں جاوید لطیف اور پی ٹی آئی کے رکن مراد سعید کے درمیان فلور آف دی ہائوس اختلاف ہوا اور یہ اختلاف قومی اسمبلی کی لابی میں جھگڑے میں تبدیل ہو گیا‘ دونوں میں ہاتھا پائی ہو گئی‘ مجھے خطرہ ہے یہ جھگڑے جس طرح اسمبلی سے باہر آ رہے ہیں‘ یہ اگر ایک بار اسمبلی سے باہر آ گئے‘ یہ سڑک پر آ گئے تو ملک کی گلیوں‘ ملک کی سڑکوں پر لڑائی شروع ہو جائے گی اور اگر یہ لڑائی ایک بار شروع ہو گئی تو پھر یہ آسانی سے کنٹرول نہیں ہو سکے گی‘ ہماے لیڈروں‘ ہمارے پارلیمنٹیرینز کو بہرحال اپنی زبان کو کٹنرول کرنا ہو گا‘ یہ لوگ اگر اپنی دو تولے کی زبان نہیں سنبھال سکتے‘ یہ اگر اپنے بلڈ پریشر قابو میں نہیں رکھ
سکتے تو پھر یہ پورے ملک کو کیسے قابو میں رکھیں گے‘ یہ پورے ملک کو کیسےسنبھالیں گے‘ آپ اگر آئین کو اپنے ساڑھے پانچ فٹ کے جسم پر نافذ نہیں کر سکتے تو آپ یہ آئین پورے ملک میں کیسے نافذ کریں گے‘ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ کھلے عام ایک دوسرے کو تھپڑ مار رہے ہیں‘ یہ گراوٹ‘ یہ عدم برداشت اور یہ بدتمیز لہجے یہ کہاں تک چلیں گے‘ یہ قوم کو کہاں تک لے جائیں گے۔