لاہور(آئی این پی) لاہور کے علاقے ڈیفنس کی زیڈ بلاک مارکیٹ میں ہونے والے دھماکے کی فرانزک رپورٹ تیار کرلی گئی۔پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے ڈیفنس دھماکے کی رپورٹ پولیس کو ارسال کردی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیفنس دھماکے میں بارودی مواد استعمال نہیں کیا گیا، دھماکہ گیس لیکج سے ہوا آج بھی ڈیفنس کی زیڈ بلاک مارکیٹ میں عام شہریوں کا داخلہ بند ہے
۔خیال رہے کہ گزشتہ روز محکمہ انسداد دہشتگردی(سی ٹی ڈی)کی جانب سے جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی گیا تھا کہ ڈیفنس کی زیڈ بلاک مارکیٹ میں دھماکہ بارود کی وجہ سے نہیں بلکہ سلنڈر پھٹنے سے ہوا۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ڈیفنس دھماکہ دہشت گردی نہیں گیس لیکج یا سلنڈر پھٹنے کا حادثہ ہے ‘خرابی زیادہ لوگوں کے بولنے سے ہوئی اور اگر مختلف لوگ مختلف بات نہ کرتے تو لوگوں میں کنفیوژن نہ پھیلتی‘مستقبل میں اس طرح کی افواہوں اور جعلی خبروں کے تدارک کے لیے صرف ترجمان ہی بات کرے اور اس مقصد کے لیے سب سے مستند اتھارٹی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کا آفس ہے اور اس کو یقینی بنایا جائے گا‘ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے میں سمجھتا ہوں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری قومی جنگ ہے، یہ میڈیا، سیاسی جماعتوں سب کی جنگ ہے، ہم سب نے اسے مل کر لڑنا ہے اور ہر قیمت پر اس جنگ کو جیتنا ہے اور دہشت گردوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہے‘لاہور چیئرنگ کراس پر ہونے والے حملے کی تحقیقات میں پیشرفت ہوئی ہے ،اس حملے کا پورا نیٹ ورک ٹریس ہو گیا ہے،اس میں کوئی مقامی سطح پر کوئی سہولت کار شامل نہیں،
گرفتاردہشت گردوں سے حاصل اطلاعات کی روشنی میں ایکشن پلان بنارہے ہیں،دہشت گردوں سے ملنے والی اطلاعات میڈیا سے شیئر نہیں کرسکتے‘ سیاسی مخالفین منفی پراپیگنڈہ کررہے ہیں، ملک پر رحم کریں ان کی حکمرانی کا خواب ایسے پورا نہیں ہوگا۔ وہ جمعہ کے روز ایوان وزیر اعلی میں صوبائی وزیر انسداد دہشتگردی کرنل (ر) محمد ایوب خان ، سیکرٹری داخلہ پنجاب میجر (ر) اعظم سلمان ،آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا ،ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی اور دیگر کے ہمراہ پر یس کانفر نس سے خطاب کر رہے تھے رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ ابتدائی طور پر زبانی تشخیص کی جاسکتی تھی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ، محکمہ انسداد دہشت گردی اور پولیس کی جانب سے مختلف بیانات دیئے گئے، تاہم چونک عمارت دھماکے سے بری طرح متاثر ہوئی تھی اور اسے خطرناک قرار دیا گیا تھا لہٰذافرانزک ٹیم کو اس مقام سے سیمپل جمع کرنے میں تاخیر ہوئی۔دھماکے کے مقام سے فرانزک ٹیم نے تجزیے کے لیے 6 سیمپل اکھٹے کیے تھے ،جمعہ کی صبح فرانزک لیبارٹری سے رپورٹ موصول ہوئی ہے اور جو نمونے لیے گئے تھے ان میں سے کسی میں بھی بارودی مواد نہیں ملا۔وزیر قانون نے کہا کہ جتنے لوگ بھی زخمی ہوئے یا ہلاک ہوئے ان کے جسموں پر چھروں کے زخم ہونے چاہیے تھے لیکن ان کے جسموں پر وہاں پھٹنے والے مواد کی وجہ سے زخم آئے۔ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ریسکیو 1122، پولیس، فرانزک ڈپارٹمنٹ اور دیگر اداروں کی جانب سے دھماکے کے حوالے سے دی جانے والی رائے مختلف تھی تاہم اب یہ تصدیق کی جا رہی ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا، کوئی دہشت گردی یا بارودی مواد سے ہونے والا دھماکہ نہیں تھا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دھماکے کی نوعیت سے متعلق سب کی الگ الگ رائے تھی اور میں نے تمام افراد سے درخواست کی تھی کہ فرانزک نتائج آنے سے قبل بیان دینے سے گریز کریں۔دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے تصدیق اسی وقت ممکن تھی جب فرانزک ٹیسٹ کے نتائج آتے اور یہ نتائج سامنے آنے میں 6 سے 8 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔وزیر قانون کے مطابق اب تک کی تحقیقات سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق وہاں گیس کی لیکج ہوئی اور امکان ہے کہ وہاں گیس سلنڈر موجود تھے۔حادثے کی رپورٹ درج کرلی گئی ہے ،ناقص سلنڈر مہیا کرنے والوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور رپورٹ کی روشنی میں ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے بعض چینلز کی جانب سے اس دھماکے کی نوعیت کی تصدیق کے بغیر اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری قومی جنگ ہے، یہ میڈیا، سیاسی جماعتوں سب کی جنگ ہے، ہم سب نے اسے مل کر لڑنا ہے اور ہر قیمت پر اس جنگ کو جیتنا ہے اور دہشت گردوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔عوام میں پھیلنے والی سراسیمگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثناا للہ کا کہنا تھا کہ’خرابی زیادہ لوگوں کے بولنے سے ہوئی اور اگر مختلف لوگ مختلف بات نہ کرتے تو لوگوں میں کنفیوژن نہ پھیلتی۔مستقبل میں اس طرح کی افواہوں اور جعلی خبروں کے تدارک کے لیے صوبائی وزیر قانون نے تجویز دی کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال میں ضروری ہے کہ صرف ترجمان ہی بات کرے اور اس مقصد کے لیے سب سے مستند اتھارٹی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کا آفس ہے اور اس کو یقینی بنایا جائے گا۔