اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مہک نے قبائلی علاقے کی تاریخ بدل ڈالی۔ قبائلی پولیس کی پہلی خاتون پولیس اہلکار مہک پرویزوطن کے دفاع کیلئے پرعزم۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے خواتین کے حوالے سے اپنی سخت روایات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہاں خواتین کو صرف چار دیواری میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے
وہ کوئی نوکری نہیں کر سکتیں چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری۔ مگر لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی پرعزم بیٹی مہک پرویزنے دفاع وطن کیلئے ان روایات کو بدل ڈالا۔ مہک پرویز کا تعلق لنڈی کوتل کے ایک اقلیتی مذہبی گھرانے سے ہے ۔ اس نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے ۔ قبائلی پولیس میں بھرتی کے وقت وہ دو بچوں کی ماں تھی مہک شروع سے ہی فورس کا حصہ بننا چاہتی تھی۔ اپنی پیشہ وارانہ تربیت کے بارے میں مہک کا کہنا تھا کہ سلیکشن کے دوران انہیں بہت مشکل مراحل سے گزرنا پڑا بعد ازاں پانچ ماہ کی سخت ٹریننگ کے ابتدائی ایام ان کیلئے بہت سخت تھے۔ مہک کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوران تربیت پہلی مرتبہ رائفل کا استعمال کیا جو ان کیلئے نیا اور مشکل تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جانتی ہیں کہ یہ ایک پرخطر ڈیوٹی ہے مگر وہ دفاع وطن کیلئے پرعزم اور تیار ہیں۔مہک پرویز کے شوہر غفار مسیح اپنی اہلیہ کے اس فیصلے میں خوش اور ان کے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ قبائلی رسم و رواج کے مطابق وہاں کی خواتین برقعہ پہنتی ہیں لہٰذا تلاشی کیلئے ایسی جگہوں پر خواتین اہلکاروں کا ہونا بہت ضروری سمجھا گیا جس کی بنیاد پر قبائلی علاقوں کی خواتین کیلئے بھرتی شروع کی
گئی تھی جو کہ مذہب اور نسل سے بالاتر تھی جس کے تحت مہک پرویز سمیت چار قبائلی اقلیتی گھرانوںکی خواتین نے لیویز میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یاد رہے کہ فاٹا میں تقریباََ 25ہزار عیسائی مذہب کے پیروکار آباد ہیں جن میں سے 7ہزار صرف خیبرایجنسی میں رہتے ہیں۔قبائلی عیسائی سردار ولسن وزیر مسیح نے مہک سمیت دیگر مسیحی خواتین کی لیویز میں شمولیت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کے لئے فخر کی بات ہے مگر یہ بھرتی ہونے والی خواتین کیلئے ایک اہم اور بھاری ذمہ داری بھی ہے جنہیں انہوں نے جانفشانی سے نبھانا ہے۔