اسلام آباد(آن لائن) وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک ارب دس کروڑ روپے سے زائد کا نیا سکینڈل سامنے آگیا ہے ۔ وزارت آئی ٹی کے اعلیٰ افسران نے ملازمین کے ٹرسٹ فنڈ، گریجویٹی اینڈ پنشن فنڈ کے 1103 ملین روپے سرمایہ کاری پر لگا رکھے ہیںجبکہ متعلقہ ملازمین کو اپنے واجبات لینے میںشدید مشکلات پیدا ہوگئی ہیں سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وزارت آئی ٹی نے وزارت کے ماتحت اداروں کے ہزاروں ملازمین
کے گریجویٹی ، ٹرسٹ فنڈ کے ایک ارب دس کروڑ تیس لاکھ روپے مختلف بینکوں میںسرمایہ کاری پر لگا رکھے ہیں اور سرمایہ کاری کرنے سے قبل وزارت کے اعلیٰ افسران نے سرمایہ کاری کمیٹی تشکیل دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور نہ متعلقہ کمیٹی سے اجازت طلب کی ہے قانون کے مطابق وزارت کو بھاری سرمایہ کاری سے قبل سکیورٹی ایکسچینج کمیشن سے اجازت لینا ضروری ہوتی ہے لیکن وزارت نہ اس قومی ادارے کو ہی اندھیرے میںرکھے ہوئے ہے سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وزارت کے اعلیٰ افسران نے یہ سرمایہ کاری نجی کمرشل بینکوں میں کی تھی اور سرمایہ کاری سے قبل اظہار دلچسپی کا ٹینڈر بھی نہیں دیئے تھے اس سرمایہ کاری میں زیادہ رقوم ٹیلیفون انڈسٹری میرپور کے ملازمین کی ہیں قانونی طور پر ضروری تھی کہ ٹی آئی پی کے ملازمین کے فنڈز کی سرمایہ کاری سے قبل ٹی آئی پی کے بورڈ سے اجازت لینا ضروری تھا لیکن یہ اجازت ہی نہیں لی گئی سرکاری دستاویزات میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ وزارت چھ کروڑ تیس لاکھ روپے کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ خریدے تھے تاہم محکمانہ سستی کی وجہ سے ادارے کو ایک کروڑ روپے سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی ذمہ داری ممبر ٹیلی کام پر ڈالی گئی ہے رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ وزارت این آر ٹی سی اور ٹی ایس سی نامی اداروں سے ایک کروڑ
79لاکھ روپے کی ریکوری کرنے میں ناکام ہوئے ہیں وزارت آئی ٹی میں کرپشن کی بدعنوانی پہلے ہی عروج پر ہے کیونکہ وزیر مملکت انوشہ رحمان خود نواز شریف کی کرپشن بچانے کیلئے وزارت کو وقت دینے کی بجائے حکمرانوں کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہیں۔