صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے جھرمٹ میں نبی کریمﷺ تشریف فرما تھے۔آپﷺ نے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’قیامت کے قریب میری امت پر دوسری قومیں ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے‘‘۔صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کیا مسلمان اس وقت تعداد
میں کم ہونگے’’آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ مسلمان تعداد میں بہت زیادہ ہونگےمگر وہ دشمن پر ہلکے ہونگے جیسی سمندر میں جھاگ۔‘‘دنیا بھر پر اگر نظر دوڑائی جائے تونبی کریمﷺ کی یہ حدیث اپنے تمام معنی اور مطالب کے ساتھ نظر آئے گی۔دنیا بھر میں صرف مسلم ممالک ایسے نظر آئیں گے جہاں کشت و خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، میانمار میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کا گوشت بدھ بھکشوئوں نے اپنی قوم پر حلال قرار دے دیا ہے۔ فلسطین میں آئے روز صیہونی حملوں میں مسلمان بچے اور عورتیں نشانہ بن رہی ہیں ،عراق ، شام، یمن میں مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ذبح کر رہے ہیں، امریکہ اور مغربی طاقتیں جب چاہتی ہیں کسی بھی مسلمان ملک کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیتی ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کا قتل کر دیتی ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال افغانستان، عراق اورلیبیا ہیں۔مسلمانوں کے وسائل پر اغیار قابض ہو چکے ہیں ۔یہ سب مسلمانوں کے مسلکی اور آپسی انتشار کا نتیجہ ہے ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ فتنہ تاتار کی ابتدا بنا جس کی پیش گوئی نبی کریمﷺ کی احادیث میں بھی کی گئی تھی۔ مگر مسلمان آج بھی اپنی
تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔مسلم دنیا پر تاتاریوں کا حملہ ( 617 ) اسلامی تاریخ کا سب سے بھیانک واقعہ تھا- عجیب بات ہے کہ یہ حملہ عین اسی زمانہ میں هوا جب کہ مسلمان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں یورپ کی صلیبی اقوام پر فتح (587 ) حاصل کر چکے تھےاور ان پر اپنی فوجی برتری کی شاندار روایات قائم کی تھیں-
صلاح الدین ایوبی کی وفات (589 ) کے صرف 25 سال بعد تاتاری قبائل کو کیسے یہ جرآت هوئی کہ وه مسلم سلطنت پر حملہ کر دیں-اس کا راز مسلمانوں کا آپس کا اختلاف تھا، اس زمانہ میں بغداد میں خلیفہ ناصرالدین کی حکومت تھی-خراسان میں خوارزم شاه حکومت کرتا تھا-یہ دونوں مسلمان تھے-خوارزم شاه اگر چہ ایک آزاد حکمران تھا
تاهم آئینی طور پر وه خلیفہ بغداد کے ماتحت تھا اور اس کےزیر نگیں علاقوں میں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھا جاتا تھا-خوارزم شاه کے ذہن میں بغاوت کے خیالات نے جنم لیا اور اس نے 615 میں اپنی سلطنت میں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھنا بند کروادیا اور اپنی سلطنت کو دریائے دجلہ تک وسیع کرنے کے منصوبے بنانے میں مصروف ہو گیا-
خوارزم شاہ کے منصوبوں کی بھنک اور خراسان سے پہنچنے والی خبروں نے خلیفہ ناصرلدین کو آگ بھگولا کر دیا، وہ خوارزم شاہ کو سبق سکھانے کیلئے بے چین رہنے لگا مگر اس وقت خراسان پر کسی بھی فوجی مہم جوئی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی -چنانچہ اس نے نہایت عیاری اور مکاری کا استعمال کرتے ہوئے ایک خوفناک منصوبہ ترتیب دیا-
اس دور کے مورخ کامل بن اثیر نےلکھتا ہے کہ اس نے اس خوفناک منصوبہ کے مطابق چین کی سرحد پر بسنے والے تاتاریوں کو خوارزم شاه کے خلاف اکسا یا-یہ وحشی قبائل چنگیز خان کی قیادت میں اپنے علاقے سے نکلے اور خوارزم شاه کی سلطنت (خراسان) میں گھس آئے-خوارزم شاه نے مقابلہ میں شکست کھائی اوروه بھاگ کر طبرستان چلا گیا
جہاں 617 میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مر گیا-خراسان اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد تاتاریوں کا حوصلہ بڑھ چکا تھا-وه بغداد کی طرف بڑھے اور خود ناصرالدین کی سلطنت پر حملہ کر دیا۔تاتاریوں اگر چہ فوری طور پر بغداد پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تاهم سلطنت بغداد پر تاتاریوں کے مسلسل حملہ نے ناصرلدین کو
اتنا پریشان کیا کہ اس کو موذی پیچس هوگئے جو مدت تک جاری رہے-یہاں تک کہ خلیفہ نہایت کمزور هو گیا اور اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی-اسی اندھے پن کی حالت میں 622 میں اس کا انتقال هو گیا-دو مسلم قائدین جو ایک دوسرے کو قبر میں پہنچانا چاہتے تھے خود قبر میںپہنچ گئے-خوارزم شاه خطبہ کی موقوفی کے دو سال بعد اور ناصرلدین اللہ حملہ کروانے کے چار سال بعد-