نیویارک (آئی این پی ) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان سے واپس جانے والوں میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں اور اس طرح حالیہ برسوں میں یہ دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جسے واپس بھیجا گیا ہے، اب ان پناہ گزینوں کو افغانستان میں مسلح جنگوں، تشدد، مفلسی اور بے دری کا سامنا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے 76 صفحات پر مشتمل اپنی تازہ رپورٹ میں اقوام متحدہ پر اس جبری نقل مکانی میں ساز باز کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اجتماعی جبری واپسی’ نامی رپورٹ میں یو این سی ایچ آر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے عوامی سطح پر ‘رضاکارانہ آبادکاری’ کے پروگرام میں اضافہ کیا اور اس طرح وہ پاکستان کے ساتھ پناہ گزینوں کے ساتھ برے سلوک میں شامل ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے سینیئر محقق گیری سمپسن نے کہا کہ دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے کے بعد سنہ 2016 کے وسط میں پاکستان نے حالیہ زمانے میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین مخالف تحریک کا محرک ہوا اور انھیں وطن لوٹنے پر مجبور کیا۔ان کا کہنا ہے ایسا اس لیے ہوا کہ ‘اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے پاکستان کو نہیں روکا۔انھوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی ڈونرز کو اس معاملے میں دخل دے کر پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ پر دبا ڈالنا چاہیے تاکہ پاکستان میں باقی افغان پناہ گزینوں کو بچایا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے واپس ہونے والے ہر ایک پناہ گزینوں کے لیے نقد رقم کو دگنا یعنی 400 امریکی ڈالر کر دیے جانے نے بھی لوگوں کو واپسی کے لیے تیار کیا۔ہیومن رائٹس کے مطابق یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے جنگ زدہ علاقوں میں واپس نہیں جا سکتے یا پھر ان کے پاس کوئی گھر ہی نہیں جہاں وہ واپس جا سکیں۔
پناہ گزینوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان میں افغان مخالف جذبات کے اچانک پیدا ہو جانے سے بھی خوف زدہ ہو گئے۔اقوام متحدہ کے ادارے نے ہیومن رائٹس واچ کو رواں سال 27 جنوری کو ایک خط لکھا جس میں پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے خدشات کو تسلیم کیا تاہم اس بات کی سختی سے تردید کی کہ رقم دگنی کیے جانے سے پناہ گزینوں کی واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔