اسلام آباد (آئی این پی)پیپلزپارٹی کے دوسرے دور حکومت کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان لڑائی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے ۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دور میں جب فاروق لغاری صدر مملکت کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو ایوان میں اس وقت کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ( ن) نے احتجاج کیا تھا اس دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین درمیان شدید ہاتھا پائی اور ہنگامہ آرائی ہوئی
جس کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے حملہ کرکے مسلم لیگ (ن) کی رہنما بیگم تہمینہ دولتانہ ،مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر جو اس ایم این اے تھے انھیں اور اوکاڑہ سے سابق رکن قومی اسمبلی رائو قیصر علی کو زخمی کردیا جنھیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ بعد ازاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت کے ذریعے آئندہ اسطرح کے واقعے کو نہ دہرانے کا عہد کیا ۔۔2008سے 2013 کے دوران ایسا کوئی بھی واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔مسلم لیگ (ن ) نے اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومتی جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ اسطرح کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہونے دیا۔ 1995کے بعد جمعرات کو قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے کا پیش آنے والا یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اراکین گھتم گھتا ہو گئے ،مکے ،لاتوں اور گھونسوں کی بارش ہوئی جبکہ پی پی پی اراکین نوید قمر اور دیگر لڑائی چھڑوانے کی کوشش کرتے رہے جو ناکام رہے سیکیورٹی گارڈز نے اراکین کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔ہنگامہ آرائی اس وقت ہوئی جب شاہ محمود قریشی وزیراعظم نوازشریف کیخلاف تحریک استحقاق کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اس دورا ن پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے وزیراعظم کیخلاف نعرہ بازی کی گئی جس پر حکومتی اراکین بھی اٹھ کھڑے ہوئے نعرے بازی شروع کردی اور معاملہ آہستہ آہستہ گرم ہو گیا
جس کے بعد پی ٹی آئی کے شہریار آفریدی اٹھ کر شاہدخاقان عباسی کے پاس گئے اور بدتمیزی کی جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ایوان اکھاڑا بن گیا اور دورنوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر گھونسوں اور مکوں سے بارش کر دی گئی۔