ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کارگل جنگ کی انکوا ئری اورپاکستانی ہوائی اڈوں کی دوسرے ملک حوالگی،بالاخر بڑا قدم اُٹھالیاگیا،پرویزرشید سرگرم

datetime 18  جنوری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آئی این پی) سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2016 کے چیئر مین اور ارکان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923میں ترامیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری محکمہ جات میں سیکشن آفیسر جس فائل ، دستاویزات ، کاغذات کے بارے میں کلاسیفائیڈ کا لفظ لکھے اس سے معلومات تک رسائی کا حق ختم ہوجاتا ہے۔
سینیٹ آف پاکستان میں کارگل جنگ کی انکوا ئری کا سوال اٹھایا گیا ۔ جواب آیا خفیہ، حساس ، قومی سلامتی کی وجہ سے جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ٹینکوں ، توپوں اور دفاعی سازو سامان کے عمل اور قیمت کے بارے میں بھی سوال پر یہی جواب آیا ۔ سرکاری اداروں اور ریاستی حوالے سے معلومات تک شہریوں کے حق اور آگاہی سے ملکی دفاع اور قومی سلامتی اور زیادہ مضبوط ہوگی۔ وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومتی بل کا مقصد شہریوں کو معلومات تک رسائی کے حق کو یقینی بنانا ہے۔ کمیٹی کی طرف سے تمام تجاویز کو بل میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دفاع اور قومی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرسکتے ۔

1923کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو دیکھنا ہوگا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہمارے ہوائی اڈے دوسرے ملک کے حوالے کردیے گئے کس نے اجازت دی ۔ دو ملکوں کے درمیان کیا معاہدہ تھا۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیرٗمین سنیٹر فرحت االلہ بابر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نہال ہاشمی ، پرویز رشید ، سید مظفر حسین شاہ، ہدایت اللہ ، خوش بخت شجاعت ، روبینہ خالد ، کامل علی آغا ، وزیر مملکت مریم اورنگزیب ، سیکرٹری وزارت اطلاعات اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں معلومات تک رسائی کے حق کے بل 2016پر شق وار پربحث کی گئی۔چیئرمین کمیٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملکی راز قومی سلامتی کیا ہے اور کیا نہیں ہے دشمن کے ایجنٹ کی تعریف کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کارگل جنگ کی انکوائری ہوئی یا نہیں کسی کو پتہ نہیں میں جاننا چاہتا ہوں کہ ٹینک اور توپیں دفاعی سازو سامان کہاں سے خریدا گیا اور کتنے میں خریدا گیا خریداری کاعمل کیا تھا۔ سرکاری ملازمین سالانہ اثاثہ جات کی تفصیل تحریری طور پر اپنے دفاتر میں جمع کراتے ہیں ۔ فوجی افسران کی طرف سے جی ایچ کیو میں اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرانے کے سوال پر بھی خفیہ ، حساس اور قومی سلامتی کا جواب آیا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل میں پارلیمنٹ ، وفاقی اداروں اور عدالتوں کو بھی پبلک باڈیز میں شامل کیا جائے اور وہ سرکار ی و غیر سرکاری تنظیمیں جو پبلک فنڈ حاصل کرتی ہیں اور پاکستان کے کسی بھی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہیں ۔

بل میں ڈالی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ جس پر وزارت کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی تشریح کابینہ ڈیویژن نے تحریری طور پر کی ہوئی ہے۔ جس میں وفاقی حکومت کی ہدایات کا بھی ذکر موجود ہے۔ اس پر آج تک نہ تو اعتراض اٹھایا گیا اور نہ ہی چیلنج کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی فرحت اللہ بابرنے کہا کہ اس ایکٹ پر کیوں نہ تفصیل سے غور کرکے ترامیم تجویز کی جائیں ۔ اگر حکومت نے چھوٹ دی ہے تو معلومات تک رسائی کے حق پر مشق کرنا بے سود ہوگا۔ ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جس کا پارلیمنٹ تحفظ بھی کرسکے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک سے تعلقات کے بارے میں معلومات تک رسائی کے حق کے معاملے کو جوہانس برگ معاہدے کے اصول کے تحت دیکھا جائے اور دوسرے ممالک کے اس بارے میں قوانین کی معلومات بھی حاصل کی جائیں۔

وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمنٹ کو پورا آئینی حق حاصل ہے لیکن دوسرے ممالک میں موجو د قوانین کا تقابلی جائزہ بھی لے رہے ہیں حاصل ہونے معلومات کمیٹی کو فراہم کی جائیں گی۔ وزیر مملکت نے کہا کہ معلومات تک رسائی کا حق ہر پاکستانی شہری کو حاصل ہے ۔ پہلے شکایت کے بارے میں درخواست پر عمل نہ ہونے پر اپیل کا حق انفارمیشن کمیشن میں ہوگا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کسی بھی فیصلے یا حکم سے پہلے کسی سرکاری ملازم کے اختلافی نوٹ سے بھی شہری کو تمام معلومات تک رسائی ہونی چاہیے ۔ عام طور پر سرکاری ملازمین دباؤ پر فیصلہ یا حکم نامہ جاری کردیتے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہا کہ بل کے تحت پہلے والی معلومات اور فیصلے تک کے عمل میں اضافی نوٹس ،آڈٹ، تحقیقات اور مکمل مواد تک بھی رسائی ہوگی۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ بل کو اور زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ کرتا کوئی بھرتا کوئی ہے ۔ سب کو آشکار ہونا چاہیے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہمارے ہوائی اڈے دوسرے ملک کے حوالے کردیے گئے کس نے اجازت دی ۔ دو ملکوں کے درمیان کیا معاہدہ تھا۔ آج تک پتہ نہیں ۔ پاکستانی شہری دوسرے ملکوں کے حوالے کیے گئے کس معاہدے کے تحت ہواکچھ پتہ نہیں ۔ آئندہ پاکستان میں بھی اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیں اگر ہوں تو شہریوں کے علم میں آئیں۔ سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ کوئی استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں عرب شیوخ بھی مستثنیٰ ہیں۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ موجو دہ بل کا دائرہ کار فاٹا تک نہیں ہوگا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…