منگل‬‮ ، 16 دسمبر‬‮ 2025 

’’کیا یہ بچپن میں شرارتی تھی ؟ ‘‘ بی بی سی اردو پر جب ملالہ کے والد سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے ملالہ کے بچپن کا کیا عجیب و غریب قصہ سنا دیا ؟

datetime 18  جنوری‬‮  2017 |

برمنگھم (آئی این پی )ملالہ یوسفزئی کی والدہ تورپکئی یوسفزئی نے کہاہے کہ جب ملالہ پر حملہ ہوا تو ان کے لیے وہ کڑا وقت تھا مگر اس حال میں بھی انھوں نے اللہ سے حملہ آور کو ہدایت دینے کی دعا کی۔ بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو میں ایک سوال پر تورپکئی نے کہا کہ ’میں نے اس حال میں بھی حملہ آوروں کے لیے بد دعا نہیں کی بلکہ میں نے کہا کہ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے۔تورپکئی نے کہا کہ اگرچہ ملالہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں مگر اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ ملالہ کی ماں ہیں نہ کہ ان دہشت گردوں کی جو خود کو اور دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔
سوچ رہی تھی کہ اْن حملہ آوروں کی مائیں کتنی افسردہ ہوں گی کہ ان کے بیٹوں نے ایک نہتی بچی پر گولی چلائی۔ انھوں نے گِڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی کہ وہی ملالہ کو زندگی دینے والا ہے۔مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ سکول جانے سے پہلے میں نے کسی بات پر ملالہ کا دل تو نہیں دکھایا تھا۔ فیس بک پر ایک سوال کہ سوات کتنا یاد آتا ہے، انھوں نے کہا کہ وہاں کی یاد انھیں بہت ستاتی ہے۔ خاص طور پر اپنی ضعیف والدہ کی یاد بہت آتی ہے۔ اس سوال پر کہ بچپن میں ملالہ شریر تو نہیں تھیں، تورپکئی نے کہا کہ وہ بہت صابر اور شاکر بچی ہے۔ اس نے انھیں کبھی تکلیف نہیں دی۔
ملالہ کے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہم لوگ منگورہ میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ننھی ملالہ اپنی دادی سے ملنے شانگلہ گئی تو ان سے کہا کہ باتیں تو بہت ہیں جو میں آپ کو بتا سکتی ہوں، مگر امّی نے منع کیا ہے کہ گھر کی باتیں کسی سے مت کہنا!۔ تورپکئی سے پوچھا گیا کہ جو طالبات (کائنات اور شازیہ) ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں کبھی ان کا بھی ذکر ہوتا ہے؟‘تورپکئی نے بتایا کہ وہ برطانیہ ہی میں زیر تعلیم ہیں اور وہ اس بات پراللہ کی شکرگزار ہیں کہ ان کی زندگیاں محفوظ رہیں، کیوں کہ ہماری وجہ سے کسی کو نقصان پہنچتا تو بہت مشکل ہو جاتی۔اس موقعے پر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے کہا کہ کائنات اور شازیہ ویلز میں زیر تعلیم ہیں۔ اور چھٹیوں میں وہ ان کے گھر جاتی ہیں اور یہ کہ وہ بھی تعلیم کے لیے ملالہ کی مہم کا حصہ ہیں۔
انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے علاقے بھساول سے نظام شیخ نے پوچھا تھا کہ ان والدین کے لیے ان کا کیا پیغام ہے جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتی ہیں۔تورپکئی نے کہا کہ ‘لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں، ہم نے انھیں بوجھ بنا دیا ہے۔ بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ عورت بچوں کی پرورش اور تربیت کرتی ہے، اس لحاظ سے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ فرق صرف قلم کا ہے۔ لڑکی کو کوئی قلم نہیں دیتا، اس لیے وہ اندھیرے میں رہتی ہے۔ میری سب سے یہ درخواست ہے کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں۔
لوگوں کے منفی رویے اور غیر شائستہ زبان کے بارے میں تورپکئی کا کہنا تھا کہ اندھیرے کے بغیر روشنی کی قدر کیسے ہوتی اور برے لوگوں کے بغیر اچھوں کی پہچان کیسی ہوتی۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘گرمیوں میں لوگ سورج کو برا کہتے ہیں، مگر سردیوں میں اس کی گرمی کی خواہش کرتے ہیں۔ ملالہ کو جو مقام اللہ نے دیا ہے وہ بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا ہو گا۔ انھیں بھی آزادی ہیں اپنی بات کہنے کی۔تورپکئی نے کہا کہ ملالہ ان باتوں کی وجہ سے اپنے نصب العین سے ہٹنے والی نہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ویل ڈن شہباز شریف


بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…