پشاور(آئی این پی )صوبہ خیبر پختونخوامیں سال 2016 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئیں اور اس مدت کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پچھلے چھ سالوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہیں۔اس امر کا انکشاف محکمہ انسدادی دہشت گردی کے ایڈیشنل آئی جی پی صلاح الدین کی طرف سے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ناصر خان دُرانی کو صوبے بھر میں دہشت گردی کی موجودہ صورتحال کے بارے میں دی گئی تفصیلی بریفنگ میں ہوا۔ جسمیں بتایا گیا کہ سال 2016 کے دوران دہشت گردی کے 238 واقعات رونما ہوئے جبکہ سال 2014 اور سال 2015میں بالترتیب 600 اور 297 واقعات رونما ہوئی تھیں۔
بریفنگ کے مطابق اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات بھی پچھلے تین سالوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہیں۔پچھلے سال بھتہ خوری کے 100 واقعات رونما ہوئے۔ جبکہ سال 2014 میں 334 اورسال 2015 میں بھتہ خوری کے178 واقعات رونما ہوئی تھیں۔اسی طرح سال 2016 کے دوران اغواء برائے تاوان کے 22 واقعات کے مقابلے میں سال 2014 میں 110 اور سال 2015 میں 53 واقعات رونما ہوئی تھیں۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ سال 2016 کے دہشت گردی کے 238 واقعات میں 181 افراد ہلاک ہوئے۔ ان اقعات میں چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی ،مردان میں نادرا آفس اور کچہری اور پشاور میں ایف سی کانوائے پر حملہ وغیرہ کے چیدہ چیدہ واقعات شامل ہیں۔ اس دوران پولیس اہلکاروں نے انتہائی دلیری اور جرات کا بے مثال مظاہرہ دکھاتے ہوئے خودکش حملہ آوروں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنے اور کئی ایک نے جام شہادت بھی نوش کیا۔ بریفنگ کے دوران آپریشن ضرب غصب کے مثبت نتائج پر بھی تفصیل سے بحث کیا گیا اور یہ نتیجہ اخذکیا کہ فاٹا میں آرمی آپریشن کی بدولت صوبے کی امن و آمان کی مجموعی صورتحال پر دیرپا آثرات مرتب ہوئے۔
اس موقع پر آئی جی پی کوآپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں خیبر پختونخوا پولیس کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ اور بتایا کہ اس صورتحال میں خیبر پختونخوا پولیس کو دوبڑے چیلنجز کا سامنا تھا۔ عسکریت پسندوں کا ضرب عضب آپریشن سے بچ کر اور بھاگ کر بندوبستی علاقوں میں پناہ لینا اور ان کی مزید دراندازی کو روکنا تھا