اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں پاناماپیپرز کیس میں جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے تاہم اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل دوسرے دن بھی جاری رہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کا نہ تو پاناما لیکس میں نام ہے نہ مقدمہ میں زیر بحث کاروبار اور جائیدادوں سے کوئی تعلق ہے ۔وہ کسی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر، شیئر ہولڈر یا بینیفیشل مالک نہیں۔درخواست گزاروں نے وزیراعظم کی تقاریر میں تضاد کی بات کر کے نااہلی کا مطالبہ کیا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے سچ بولا یا انکے بیٹے حسین نواز نے سچ بولا۔ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہو گا۔مخدوم علی خان نے کہاکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں سچ بول رہے ہوں۔ میرا مقدمہ ہے کہ وزیراعظم نے جھوٹ نہیں بولا۔ وزیراعظم کو ہٹانے کا ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد اور دوسرا ثابت ہو جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے ۔وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی پہلی تقریر عمومی تھی، دوسری تقریر میں وزیر اعظم نے بعض تفصیلات سے آگاہ کیا۔عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184/3 میں اپنے دائرہ اختیار کو طے کر رکھا ہے ۔ اگر اس کی دوبارہ تشریح چاہتی ہے تو دلائل دینے کے لیے تیار ہوں۔