لندن ؍مظفرآبا د( آن لائن)انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 35فیصد گھریلو ملازم جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جبکہ آزادکشمیر میں 7فیصد ملازمین پر تشدد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی 19 کروڑ عوام میں سے 45فیصد ایسے متوسط طبقہ ہے جو غربت بیروزگار ی کے باعث اپنے بچوں کی کفالت نہیں کرسکتے وہ اپنے بچوں کو بااثر افراد کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ طیبہ سمیت اس سے قبل ایک درجن سے زائد کیس لاہور اسلام آباد میں رونما ہوچکے ہیں جس پر حکومت پاکستان نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس کے باعث طیبہ پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ان سب واقعات کا ذمہ دار حکومتیں اور وہ ادارے ہیں جو ان کے نام پر سالانہ لاکھوں روپے فنڈز وصول کرتے ہیں مگر ان کو تحفظ نہیں دیتے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35فیصد ایسے بااثر افراد ہیں جن کا تعلق عدالت عالیہ ، وکلاء ، وزراء ، ایم این ایز سے ہے جنہو ں نے اپنے گھریلو ملازموں پر انسانیت سوز تشدد کیا جن میں لاہور پہلے نمبر پر جبکہ اسلام آباد دوسرے نمبر پر ہے اسی طرح آزادکشمیر میں بھی 7فیصد گھریلو ملازمو ں جن میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جن میں میر پور کوٹلی ، راولاکوٹ ، سر فہرست ہیں جبکہ آزادکشمیر میں مہنگائی ، بیروز گاری کے باعث 40فیصدچھوٹے نو عمر بچے جن کی عمریں سکول جانے کی ہوتی ہیں وہ محنت مزدوری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں ہوٹل ، مکینکل اور ٹائر پنکچر کی دکانوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس پر کنٹرول نہ کیا گیا تو 2017ء میں ان کی شرح میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے جو کہ تشویشناک ہے