اسلام آباد(آئی این پی ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین محمد اسلم بودلہ نے اعلان کیا ہے کہ پیمرا کے معاملات کمیٹی کے دائرہ کار میں آتے ہیں، اس دائرہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ٹی وی چینلز میں اراکین پارلیمنٹ کے خلاف چلنے والے پروگرامات کا تدارک کرتے ہوئے ان کو بند کرائیں گے۔ قائمہ کمیٹی نے بھی ملک کی کوئی ثقافتی پالیسی نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ ممتاز شاعر فیض احمد فیض اور فخر زمان نے ثقافتی پالیسیاں بنا کر دی تھیں مگر اس معاملے میں کوئی حکومت پیش رفت نہ کر سکی۔ مسلم لیگ ن کے دور میں بھی مارچ 2016 ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس مجوزہ قومی ثقافتی پالیسی کا مسودہ تیار کر چکی ہے جو تاحال زیر التواء ہے ۔
قائمہ کمیٹی نے پی این سی اے سے پالیسی کا مسودہ مانگ لیا ، کمیٹی ایک ماہ میں اس مسودے کا جائزہ لے کراسے اپنی سفارش کے ساتھ قومی اسمبلی کو بھیج دے گی، قائمہ کمیٹی نے پاک چین دوستی مرکز ، آرٹ اینڈ کرافٹ ویلج اور نیفڈیک جیسے ادارے پی این سی اے کے حوالے کرنے کی سفارش بھی کی ، لوک ورثہ کے ریٹائر ڈ ملازمین کی پنشن کا مسئلہ حل نہ ہونے پر آئندہ اجلاس میں بورڈ آف ڈائریکٹر کے اراکین کو طلب کر لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس فنکاروں کی حالت زار کے تذکرے کے دوران عینک والے جن ٹی وی پروگرام کی بھی بازگشت سنائی دی۔ اجلا س میں خاتون رکن نے کہا کہ،، بن بتوڑی ناسا چوڑی ،،کا کردار ادا کرنے والی فنکارہ کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ۔ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کا اجلاس بدھ کو پی این سی اے میں ہوا ۔کمیٹی کے رکن وسیم اختر شیخ نے ایک نجی ٹی وی چینل میں اپنے خلاف چلائے گئے پروگرام کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ کمیٹی کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے کیونکہ اسے کمیٹی کے ایجنڈے میں ڈال دیا گیا ہے ۔
اس معاملے کے محرک نے کہا کہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے نتیجے میں کسی کی بھی پگڑی اچھال دی جاتی ہے یا پھر کسی کی فرمائش یا لے دے کر اراکین پارلیمنٹ کے خلا ف پروگرامات نشر کر دئیے جاتے ہیں ۔ ایسا قانون بنایا جائے کہ اس طرح کی رپورٹس تیار کرنے والوں کو تین بار انتباہ ہونے کے باوجود وہ اصلاح نہ کریں تو تمام چینلز میں اس کے جانے پر پابندی عائد ہو جائے۔ وسیم اختر شیخ نے مزید کہا کہ اراکین پارلیمنٹ میں اکثریت سفید پوش لوگوں کی ہے آئے روز کوئی نہ کوئی کیچڑ اچھال دیتا ہے۔ جس چینل نے میرے ساتھ یہ حرکت کی ہے اسے دس کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوا رہا ہوں۔ مراد سعید نے کمیٹی ایجنڈے پر یہ معاملہ آنے پر کہا کہ ضابطہ کار اور رولز کے تحت توجہ دلاؤ نوٹس یا پھر تحریک استحقاق کے ذریعے اس معاملے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ سابق اجلاس میں بھی سپیکرز پر سوالات اٹھے تھے اور سیکرٹری نیشنل اسمبلی اس میں منصف بنا بیٹھا تھا۔ اسی لئے ان معاملات کو ایجنڈے آئٹم میں شامل کرنے کا مخالف ہوں کیونکہ مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ ہے میں خود اس حوالے سے مجوزہ قانون کے لئے بل دے چکا ہوں ۔
اگر کسی ٹی وی چینل سے شکایت ہے تو اسے کونسل آف کمپلینٹ میں جانا چاہیے۔ وسیم اختر شیخ نے کہا کہ آج میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کل کسی کوبھی یہ معاملہ پیش آسکتا ہے۔ سب سے بڑے فورم پر اس معاملے کو لے آیا ہوں سیکرٹری اطلاعات و نشریات صباح محسن رضا نے کمیٹی کو بتایا کہ اس قسم کے معاملات سے عہدہ براء ہونے کے لئے وزارت نے قانون کے بارے میں سفارشات مرتب کر لی ہیں ہمیں تاحال پمرا سے کوئی مسودہ قانون نہیں ملا ہے ۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کی عزت واحترام کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر اراکین پارلیمنٹ کی عزت واحترام کے تحفظ کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے وہ سیاستدانوں کوتضحکک کا نشانہ بناتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے تنبیہ کی کہ ٹی وی نشریات میں بلاوجہ اراکین پارلیمنٹ پر الزامات نہ لگائے جائیں اور ان معاملات پر قائمہ کمیٹی اپنے دائرہ کار کو استعمال او ر اس کا تدارک کرتے ہوئے ایسے پروگراموں کو بند کروائے گی۔
قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر آئندہ اجلاس میں چیئرمین پیمرا کو بلا لیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے پی این سی اے سے پینٹنگز چوری کے بارے میں وزارت اطلاعات و نشریات کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ مانگ لی ہے اور اس بارے میں سب کمیٹی بھی اپنی تحقیقات کرے گی ۔ ڈی جی پی این سی اے جمال شاہ نے بتایا کہ ادارے کو پارلیمنٹیرین کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے انہوں نے بتایا کہ ادارے سے کئی سال پہلے ایک بہت اہم پینٹنگ بھی چوری ہوئی تھی۔ قائمہ کمیٹی نے اسلام آباد میں ادب ، ثقافت سے متعلق سی ڈی اے کے تمام مقامات و جگہیں پی این سی اے کے سپرد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے پی این سی اے کے ملازمین کو پنشن دینے کے بارے میں ادارے کی سمری کی وزارت خزانہ سے منظوری کی پرزور سفارش کر دی ہے۔ جمال شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کی کوئی ثقافتی پالیسی نہیں ہے فیض احمد فیض اور فخر زمان نے ثقافتی پالیسیوں پر کام کیا تھا مگر کوئی حکومت پیش رفت نہ کر سکی۔ قائمہ کمیٹی نے ثقافتی سرگرمیوں سے متعلق منصوبوں کو آئندہ مالی سال کے پی این سی اے کے پی ایس ڈی پی میں ڈالنے کی ہدایت کر دی ہے۔
لوک ورثہ کے ملازمین کی پنشن کا مسئلہ حل نہ ہونے پر بورڈ آف گورنر کے اراکین کو طلب کر لیا ہے۔ اراکین نے ملک میں فنکاروں ، ادیبوں ، شعرا کی خاطر خواہ ریاستی سرپرستی نہ ہونے پر افسو س کا اظہار کیا ۔ پروین مسعود بھٹی نے کہا کہ سرائیکی کے ممتاز شاعر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ سرائیکی شاعروں اور ادیبوں کی تو کسی بھی قسم کی سرپرستی نہیں ہے جبکہ انہوں نے ملک و قوم کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ ہمیں انہیں زندگی میں کچھ نہیں دے سکتے تو ان کی قبروں میں جاکر کیا کریں گے۔ بعد میں پھول چڑھانے اور موم بتیاں جلانے کا کیا فائدہ جب زندگیوں مین ان کے کام نہ آسکیں۔ سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ آرٹسٹ ویلفئیر فنڈ قائم ہے مگر انتہائی محدود ہے۔ مالی وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے کمیٹی نے وزارت خزانہ کو؟ آرٹسٹ ویلفیرفنڈ میں اضافے کی سفارش کر دی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر فنکاروں کی حالت زار کے تذکرے کے دوران عینک والے جن ٹی وی پروگرام کی بھی بازگشت سنائی دی۔ فاضل خاتون رکن نے کہا کہ،، بن بتوڑی ناسا چوڑی ،،کا کردار ادا کرنے والی کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔
جمال شاہ نے کہا کہ پاکستان کے تشخص اور معیشت کو مضبوط کرنا ہے تو اپنی تہذیب ، ثقافت ، ادب کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان میں ساڑھے نو ہزار سال قبل کا ورثہ موجود ہے۔ اراکین نے کہا کہ خطے کے ممالک میں ثقافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے ۔ پاکستان کے ادب و ثفافت سے متعلق اداروں سے ریٹائر ہونے والے ملازمین چھابڑی لگائے بیٹھے ہیں اور کوئی ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا والا نہیں ہے۔ کمیٹی نے فوری طور پر حکومت کوجلد ہی پی این سی اے کے تحت بننے والی ثقافتی پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لاکر مشترکہ طور پر منظور کرنے کی سفارش کر دی ہے۔