اسلام آباد (این این آئی)قومی احتساب بیورو(نیب )خیبرپختونخوا نے تین سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کردی،گذشتہ تین سالوں کے دوران میگا کرپشن کیسوں میں کئی سابق وفاقی و صوبائی وزراء ،اہم بیوروکریٹس اور سینئر پولیس افسران سمیت 351انتہائی بااثر ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی قومی دولت کے2 ارب 53کروڑ روپے سے زائد ریکورکرکے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے،کرپشن شکایات پر 429انکوائریاں کر کے 166کیسوں کی تحقیقات ہو ئیں اور120کرپشن ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے گئے ،عدالتوں سے ملزمان کو دلائی گئی سزاؤں کی شرح74فیصد رہی،ڈی جی نیب خیبرپختونخوا شہزاد سلیم نے کہا ہے کہ نیب پربلاوجہ تنقید کی جارہی ہے ،نیب ملک میں اینٹی کرپشن کا وہ واحد اداراہ ہے جس کی کارکردگی اور انسداد بدعنوانی کی کاوشوں کو اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت کئی عالمی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں نے سراہا ہے، نیب کے پی کے کی تین سالوں کی کارکردگی گذشتہ14سال سے کہیں بہتر رہی ہے، پلی بارگین کا قانون صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کہ ہر ملک میں ہے ،پلی بارگین ایگزیکٹو آرڈر نہیں جوڈیشل آرڈر ہے اورپلی بارگین چیئرمین نیب نہیں کرتے بلکہ عدالت اس کی منظور ی دیتی ہے، وائٹ کالر کرائمز کے ملزمان اتنے منظم اور تجربہ کار ہوتے ہیں کہ وہ کرپشن کا کوئی نشان نہیں چھوڑتے، کمزور شواہد پر ملزمان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔
منگل کو نیب کے پی کے کی طرف سے جاری کردہ تین سالہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق سال 2014تانومبر2016تک کرپشن کے مختلف کیسوں کے ملزمان سے 2ارب 53کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی ہے ،سال 2014کے دوران 81کروڑ30لاکھ ،سال2015کے دوران ایک ارب 33کروڑ70لاکھ جبکہ رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 38کروڑ 10لاکھ روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔سال2014کے دوران 116ملزمان کو گرفتار کیا گیا ،سال2015کے دوران 149ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ میں86ملزمان کو گرفتار کیا گیا ،اس طرح تین سالوں میں گرفتار کیے جانے والے ملزمان کی مجموعی تعداد351ہے۔سال 2014کے دوران 139انکوائریاں ہوئیں ،سال2015کے دوران 155انکوائریاں ہوئیں جبکہ رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران135انکوائریاں ہوئیں اس طرح تین سالوں میں کی جانے والی انکوائریوں کی تعداد 429ہیں۔سال 2014کے دوران 34تحقیقات ہوئیں ،سال2015کے دوران 82تحقیقات کی گئیں جبکہ رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے 50تحقیقات کی گئیں۔اس طرح تین سالوں میں 166کیسوں کی تحقیقات کی گئیں۔سال 2014کے دوران 29کرپشن ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے گئے ،سال2015کے دوران 40یفرنس عدالتوں میں دائر کیے گئے جبکہ رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران51ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے گئے،اس طرح تین سالوں میں عدالتوں میں دائر کیے جانے والے ریفرنسوں کی تعداد 120ہے،تین سالوں کے دوران مختلف کیسوں میں 14ارب62کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کے شواہد اکٹھے کرکے عدالتوں میں پیش کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق عدالتوں سے ملزمان کو تین سالوں میں دلائی جانے والی سزاؤں کی شرح 74فیصد رہی ہے۔
دریں اثناء صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی جی نیب کے پی کے شہزاد سلیم نے کہا ہے کہ نیب پربلاوجہ تنقید کی جارہی ہے ،نیب ملک میں اینٹی کرپشن کا وہ واحد اداراہ ہے جس کی کارکردگی اور انسداد بدعنوانی کی کاوشوں کو اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت کئی عالمی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں نے سراہا ہے،گذشتہ تین سالوں سے چیئرمین نیب کی قیادت میں کرپشن کے خاتمے کیلئے آگاہی اور تدارک سمیت انفورسمنٹ کی پالیسی پر بھی سختی سے عملدرآمد جاری ہے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا شمار دنیا کے کرپشن فری ممالک میں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ نیب کے پی کے کی تین سالوں کی کارکردگی گذشتہ14سال سے کہیں بہتر رہی ہے،انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کا قانون صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کہ ہر ملک میں ہے ،پلی بارگین ایگزیکٹو آرڈر نہیں جوڈیشل آرڈر ہے اورپلی بارگین چیئرمین نیب نہیں کرتے بلکہ عدالت اس کی منظور ی دیتی ہے اور پلی بارگین میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں،ملزم کرپشن کی رقم واپس کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی سرکاری یا حکومتی عہدے کیلئے نااہل بھی ہوجاتا ہے،بنک اسے قرضہ نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہاکہ وائٹ کالر کرائمز کے ملزمان اتنے منظم اور تجربہ کار ہوتے ہیں کہ وہ کوئی نشان نہیں چھوڑتے جس کی وجہ سے شواہد تلاش کرنا اور انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوانا انتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ کمزور شواہد پر ملزمان کو عدالتوں سے سزائیں نہیں ہوتیں اور وہ بری ہوجاتے ہیں۔نیب نے گذشتہ 17سالوں میں 280ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں ۔