اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان سرحدی انتظام کیلئے پالیسی ترتیب دے رہا ہے‘ آئندہ چند سالوں میں سرحدوں پر نقل و حرکت‘ منشیات‘ سمگلنگ کی روک تھام اور مانیٹرنگ مزید موثر ہو جائیگی‘سرحدی انتظامی مکمل ہونے کے بعد کراس بارڈر موومنٹ مزید کم ہو جائے گی ٗآئندہ تین سالوں میں برآمدی شعبے کی ترقی پر 20 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے ٗپاک چین آزادانہ تجارت معاہدے کے تحت تجارت ہو رہی ہے‘ چین کے ساتھ کسٹم الیکٹرانک ڈیٹا کا تبادلہ جلد شروع ہوگا۔ بدھ کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا کہ 2014-15ء میں بیرون ممالک میں پاکستانی مشنز کی تعداد کم اور 35 فیصد اخراجات پر کٹ لگا تھا لیکن اب ملازمین کی تعداد اور اخراجات پرانے بحال ہو گئے ہیں‘ اس سال ملازمین کی تعداد 453 ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری پہلی مرتبہ سرحدی انتظام کی پالیسی بن رہی ہے۔ دستاویزات کے ساتھ سرحد پر نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی انتظامی مکمل ہونے کے بعد کراس بارڈر موومنٹ مزید کم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بھارت جانا بہت ضروری تھا‘ یہ کانفرنس افغانسان کے معاملے پر تھی۔ مجھے بھارت میں مکمل پروٹوکول دیا گیا ٗپریس کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے۔ بھارت نے سارک کانفرنس کو سبوتاژ کیا لیکن ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت اہمیت کی حامل تھی ٗ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے کہا کہ اکتوبر 2016ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.56 فیصد اضافہ ہوا ہے ٗ آج شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2016ء کی گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد ایکسپورٹ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کی ترقی چاروں صوبوں کے محکمہ جات کی ذمہ داری ہے ٗ وفاق سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی کے تحت تعاون فراہم کر رہا ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ 2013ء میں پاکستان کی ایکسپورٹ 24.5 بلین ڈالر‘ 2016ء میں 20.8 ملین ڈالر ہوئی ہے ٗاس مدت کے دوران برآمدات کی مد میں 3.7 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور تھائی لینڈ کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدوں پر بھی تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم جولائی 2016ء سے پانچ برآمدی شعبوں بشمول ٹیکسٹائل‘ چمڑے‘ قالین‘ آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کے لئے سیلز ٹیکس صفر‘ پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بڑھانے اور ادارے کو مستحکم کرنے کے عمل کو بڑھانے کیلئے سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2015-18ء کے تحت کئی اقدامات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے ٗآئندہ تین سالوں میں برآمدی شعبے کی ترقی پر 20 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ ٹیکسٹائل پالیسی 2014ء کے تحت برآمد کنندگان کو اسی مالی سال میں 6 بلین روپے کی اضافی رقم دستیاب ہوئی ہے ٗاکتوبر 2015ء سے اب تک صنعتی فیڈرز پر زیرو فیصد الیکٹرسٹی لوڈشیڈنگ اور مارچ 2016ء سے اب تک صنعتوں کے لئے زیرو گیس لوڈشیڈنگ کے تحت ایندھن کی بلاتعطل فراہمی کی پالیسی پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے بنک دولت پاکستان اور مرکزی بنک ایران کے مابین بنکاری کے رابطے دوبارہ شروع کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزیر خرم دستگیر نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے 2009ء میں تین سال کی مدت کیلئے کلیدی تجارتی پالیسی بنیادی ڈھانچہ متعارف کرایا تاکہ طویل مدت تک پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ اب تک تین ایس ٹی پی ایف متعارف کرائے گئے ہیں جس میں نجی ایس ٹی پی ایف 2009-12 ‘ ایس ٹی پی ایف 2012-15ء‘ ایس ٹی پی ایف 2015-18ء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر دونوں اطراف گفت و شنید کر رہے ہیں۔ وزیر تجارت نے بتایا کہ پاکستان ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن ہے‘ کسی ملک کے لئے مخصوص پالیسی نہیں بنا سکتے۔ چین کے ساتھ 2006ء آزادانہ تجارت معاہدہ کیا ہے۔ سی پیک کیلئے مخصوص پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹریٹجک پالیسی فریم ورک میں کم ترقی یافتہ صوبوں اور علاقوں میں فوڈ مشینری کی برآمد اور مارک اپ میں تعاون کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹریز کے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہے۔ یقین دہانی کراتا ہوں کہ نواز شریف کی قیادت میں ہر تجارتی معاہدے میں تحفظ اور توازن کو برقرار رکھا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ کسٹم کے درمیان الیکٹرانک ڈیٹا کا تبادلہ جلد شروع ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان کے پہلے بنک نے ارومچی میں برانچ کھول لی ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اور سی پیک کے لئے فنڈز منتقلی میں پاکستانی بنک شامل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنک کے زرمبادلہ کی مقررہ حد میں کمی کی ہے۔ وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا ہے۔ نواز شریف قیادت میں سب سے وسیع اور طویل المدت 2023ء تک معیاد جاری رہے گی۔
اس طرح کی سہولیات کے لئے مختلف ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے بھی اس طرح کی سہولیات پر بات چیت کر رہے ہیں۔ وزیر تجارت نے بتایا کہ رشکئی انڈسٹریل سٹیٹ نوشہرہ میں ایکسپو سنٹر بنانے کی تجویز پر اتفاق نہیں ہوا۔ کے پی کے حکومت پشاور کے علاقے ترناب میں ایک قطعہ اراضی دے رہی ہے۔ وزارت خارجہ کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ضیاء حسین (نمائندہ واشنگٹن)‘ سعید احمد خان (نیویارک)‘ امانت اللہ (نیویارک)‘ ابرار الحق (واشنگٹن)‘ منیر احمد گوندل (مانچسٹر)‘ بشارت علی (پیرس)‘ محمد رفیع (میکسیکو)‘ حیدر علی جعفری (نیویارک)‘ محمد طارق مسعود (نیویارک)‘ مقصود احمد سومرو (جنیوا)‘ ظفر اقبال اعوان (پیرس)‘ رئیس احمد شیخ (لاس اینجلس)‘ اقبال حسین (مونٹریال) ‘ گدا حسین اجن (سٹاک ہوم)‘ افتخار احمد (سویڈن)‘ راجہ بشارت (لندن)‘ سجاد حیدر آزاد (لندن)‘ امجد حسین (واشنگٹن) اور فرح ایوب (میڈرڈ) میں پاکستان کے نمائندے تھے۔ جن کو روپوش ہونے پر جبری ریٹائرڈ اور ملازمتوں سے برطرف کیا گیا جس کے بعد ان لوگوں نے انہی ممالک کی شہریت حاصل کی۔وزارت ٹیکسٹائل کی طرف سے بتایا گیا کہ محمد اسد نے سندھ اربن کوٹہ پر یو ڈی سی تقرری پر ڈومیسائل جعلی ہونے اور عالم خان نے یو ڈی سی بھرتی میں نظر انداز کرنے کی شکایات درج کرائیں۔ ڈومیسائل جعلی ہونے کی شکایت پر تصدیق کیلئے ڈپٹی کمشنر کو کیس بھجوایا گیا جنہوں نے ڈومیسائل کی تصدیق کردی۔ دوسری شکایت کرنے والے شخص نے تحریری امتحان میں 62 نمبر حاصل کئے اور بھرتی ہونے والے شخص کے 66 نمبر ہیں۔