اسلام آباد (سپیشل رپورٹ)نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی تقرری کے بارے میں سب سے پہلےانکشاف ملٹی ویژن اورملٹی نیوز کے ایڈیٹررائواسلم نے کیاتھا ۔انہوں نے ملٹی ویژن کے اکتوبر2016کے شمارے میں اپنے آرٹیکل میں انکشاف کیاتھاکہ پاک فوج کے نئے سربراہ قمرجاویدباجوہ ہونگے ۔رائواسلم نے اکتوبرمیں د عوی کیاتھاکہ وزیراعظم نواز شریف جنرل زبیرحیات کو چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کوآرمی چیف مقررکرینگے ۔ان کایہ دعوی حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔رائو اسلم نےاکتوبر میں اپنے آرٹیکل میں لکھاتھاکہ
’’آج کل ایک جملہ زبان زد عام ہے کہ اکتوبر میں کیا ہونے جا رہا ہے اس حوالے سے تقریباً تمام معاملات فائنل ہو چکے ہیں تاہم اس کا باضابطہ اعلان مرحلہ وار ستمبر کے تیسرے ہفتے سے شروع ہو کر اکتوبر کے پہلے ہفتے تک کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اگلے آرمی چیف کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے جس کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے آرمی چیف ہوں گے۔ چیئر مین چوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے بارے میں بھی تقریباً فیصلہ ہو چکا ہے۔ نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ہوں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف سینارٹی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو آرمی چیف دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدہ پر ماضی کی روایات کے پیش نظر جس پر کئی سالوں سے علمدر آمد نہیں ہو رہا اسکے مطابق پاک فضائیہ اور پاک بحریہ میں سینارٹی کے لحاظ سے سینئر سروسز چیف کی اس عہدہ پر تعیناتی چاہتے ہیں تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کی بجائے چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدہ پر تعیناتی کا عہدہ دیا گیا ہے لیکن اس کا حتمی فیصلہ نواز شریف غیر ملکی دورہ کے بعد اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کریں گے۔ کیونکہ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدہ پر پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سینئر سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ بھی قابل غور ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو کوئی عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دو بھائی پاک فوج میں سرونگ جرنیل ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر حیات واہ کینٹ کے چیئر مین جبکہ میجر جنرل احمد حیات آئی ایس آئی میں گذشتہ تقریباً پانچ سال سے اہم پوزیشنز پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کے خاندان کے دیگر پانچ افراد کے علاوہ ان کے والد اور تایا بھی ” پاکستان کی عسکری قوت پوری مسلم اُمّہ کے فخر کی علامت ہے۔ جس دن پاکستان ایٹمی قوت بنا پوری دنیا کے مسلمانوں میں اعتماد، خوشی اور فخر کے ایک نئے احساس نے جنم لیا۔ جب بھی دنیا کے کسی مسلم ملک کو جارحیت کا سامنا ہوتا ہے اُن کی نظریں پاکستان کی جانب اُٹھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ کی تقرری میں پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان دلچسپی رکھتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی عسکری قوت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل سپہ سالار نے دنیا کے بہترین سپہ سالاروں کی صفُہ اوّل میں اپنا مقام بنایا ہے۔ یہ مقام صرف اُن کا اپنا ذاتی ہونے کے علاوہ افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے باعث فخر ہے۔ درج ذیل مضمون اور اسی نوعیت کے دیگر مضامین سوشل اور پرنٹ میڈیا پر آج کل عام نظر آتے ہیں حتمی صورتحال کیا ہو گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
جرنیل تھے جبکہ انکے دادا، پڑدادا اور نانا بھی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نواز شریف نے ان کو چیئر مین جوائنٹ چیفس اور سٹاف بنانے کا عندیہ اس لیے دیا ہے کہ سینارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ انہیں اکاموڈیٹ کر کے پاک فوج کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف نے موجودہ سینارٹی کے لحاط سے چوتھے اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کی بطور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تقرری کی سورت میں تیسرے نمبر پر آنیوالے لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ان کا نام موجودہ چیف آرمی سٹاف اور وزارت دفاع کی جانب سے وزیراعظم کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کیلئے بھجوائے جانیوالے تین رکنی پینل میں شامل ہو گا کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری کی سفارش کیساتھ ہی لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کا نام سینارٹی کے لحاظ سے ازخود چوتھے کی بجائے تیسرے نمبر پر اور روٹین کے تین رکنی پینل میں آ جائے گا جس میں سے کسی ایک کو آرمی چیف بنا نا وزیراعظم کی صوابدید ہے۔
اگلے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان اکتوبر میں کیوں کیا ذرائع کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چاہتے ہیں کہ وہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کا اعلان غیر ملکی دورہ سے واپسی پر اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کی بنائی ہوئی 34 اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کی پیشکش پر جنرل راحیل شریف کے فیصلہ کے بعد کریں تاہم اس میں فریقین کی باہمی رضا مندی اور حالات و واقعات کی روشنی میں ایک یا چند ہفتوں تک توسیع کو بھی خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے اور جنرل راحیل شریف اس آفر اور مجوزہ ڈرافٹ جو سعودی حکومت کی جانب سے ان کو فراہم کیا گیا ہے اسکو سینئر کمانڈرز کے سامنے رکھ کر یا اس معاملہ کو کور کمانڈرز کا نفرنس میں رکھ کر ان کی مشاورت سے ہی کوئی بھی جواب دینے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے ستمبر کے آخری ہفتے تک کور کمانڈرز کی کانفرنس بھی متوقع ہے۔