اسلام آباد(آئی این پی)پاکستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم فرگوسن نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور مریم نوازکے ٹیکس گوشواروں میں تضاد نہیں ، ٹیکس گوشوارے قانون کے مطابق ہیں ،2011میں مریم کا نام پلاٹ گوشواروں کے درست کالم میں درج کیا گیا ، ٹیکس گوشواروں میں مریم کا نام زیر کفالت افراد میں شامل نہیں تھا، خود کفیل اولاد کا کالم نہ ہونے پر مریم کا نام کالم 12میں لکھنا پڑا ، پلاٹ خریداری کے وقت مریم نواز خود بھی ٹیکس فائلر تھیں ، مریم نواز نے بینک ذرائع سے رقم ادا کرکے پلاٹ اپنے نام کرایا ، مریم نواز نے 2012-13ء کے گوشواروں میں پلاٹ اپنے نام ظاہر کیا ، ٹیکس گوشواروں کے فارم میں تبدیلی 2015میں ایف بی آر نے کی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کے معاملے پر پاکستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرگوسن سے طلب کی گئی رائے سامنے آگئی ہے ، یہ سابق اٹارنی جنرل اور وزیراعظم کے اس کیس میں وکیل سلمان اسلم بٹ ( کل) بروز پیر سپریم کورٹ میں جمع کرائینگے۔رپورٹ کے حوالے سے حاصل دستاویز میں شریف گروپ آف کمپنیز کے منیجر اکاؤنٹس و ٹیکس افیئرز سید اجمل سبطین کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا کہ یکم اکتوبر 2016کو آپ کی جانب سے وزیراعظم محمد نوازشریف کی جانب سے ٹیکس2011کے ویلتھ سٹیٹمنٹ میں اپنے اثاثوں کا جو ذکر کیا تھا اس حوالے سے رائے مانگی گئی ، ہماری معلومات کے مطابق ٹیکس سال 2011میں ٹیکس دہندہ نوازشریف نے اپنی بیٹی مریم صفدر کے نام سے اثاثہ خریدا ، وہ ایک بالغ ہے اور خود ٹیکس فائلر ہے ، اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ٹیکس سال 2011میں ٹیکس دہندہ نوازشریف نے اثاثہ ظاہر کیا جو ان کی بیٹی کے نام پر خریدا گیا تھا۔ یہ ویلتھ سٹیٹمنٹ کے متعلقہ فارم کے سیریل نمبر12میں درج ہے۔ اسکالم کا عنوان ہے ’’اثاثے‘‘ اگر کوئی شریک حیات ، چھوٹے بچے یا دوسرے انحصار کرنے والوں کے حوالے سے ہے ، یہ اثاثہ بیٹی کے حوالے سے سال 2011کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کے فارم کا حصہ نہیں جبکہ ہمارے پاس دستیاب معلومات کے مطابق ٹیکس سال 2012 میں ٹیکس دہندہ کی بیٹی نے اس متعلقہ اثاثے کی بینک ذرائع سے ٹیکس دہندہ کو منتقل کی۔ نتیجتاً ٹیکس دہندہ کی ویلتھ سٹیٹمنٹ سے اثاثے کو مٹا دیا گیااور بیٹی کی ویلتھ سٹیٹمنٹ اس کے اپنے اثاثے کے طور پر شامل کی گئی۔ مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر اس حوالے سے ہماری رائے جانی گئی کہ ٹیکس دہندہ اور اس کی بیٹی کی سال2011-12کے لئے ویلتھ سٹیٹمنٹ ،مصالحت کا ہے۔ اس سلسلے میں متذکرہ بالا اثاثہ انکم ٹیکس آرڈینننس 2001کی پروویژن کے مطابق تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ خط میں ظاہر کئے گئے کمنٹس اور خیالات کے مقصد کے تحت ہم نے آرڈیننس کی پروویژن متعلقہ قواعد اور فارم ویلتھ سٹیٹمنٹ برائے2011-12کا جائزہ لیا ،یہ فارمیٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آرڈیننس کا سیکشن 116ویلتھ سٹیٹمنٹ فائل کرانے کا طریقہ کار بتاتا ہے جبکہ سیکشن 116کی ذیلی دفعہ 1ویلتھ سٹیٹمنٹ کی تجدید کے بارے میں بتاتی ہے جبکہ ذیلی دفعہ2ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کرانے اور ریٹرن کے ساتھ مصالحت کے تناظر کے بارے میں بتاتی ہے جبکہ ذیلی دفعہ1کمشنر کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹس پر تخصیصات کی تجدید کے حوالے سے بھی بتاتی ہے۔ذیلی دفعہ 1 کے تحت ایک شخص کے کل اثاثوں ، اس پر عائد ذمہ داریوں ، شریک حیات، چھوٹے بچوں اور اس کے زیر کفالت افراد کے حوالے سے ہیں جبکہ ذیلی دفعہ 1کی جزو سی میں کسی بھی شخص کی جانب سے ایک شخص کی جانب سے کسی دوسرے شخص کو متعلقہ یا خاص مدت میں اثاثے منتقل کئے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ویلتھ سٹیٹمنٹ اور مصالحت کے حوالے سے اوپر دی گئی تخصیصات ذیلی دفعہ 2کے تحت ہیں ، یہ آرڈیننس کے تحت نہیں دی گئیں لیکن ویلتھ سٹیٹمنٹ اور قواعد میں بیان کی گئی مفاہمت سے ماخوذ کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیکس سال 2011۔12کی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں جو بیان کیا گیاوہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فارم میں کوئی ایسا کالم یا فیلڈ نہیں ہے جس سے کسی دوسرے شخص کے نام پر اثاثے ظاہر ہوتے ہوں۔ دوسرے الفاظ میں ایک ٹیکس دہندہ اپنے فنڈ سے دوسرے کسی شخص کے نام پر اثاثہ خریدتا ہے اپنی شریک حیات ، چھوٹے بچوں اور دیگر زیر کفالت افراد کے ، ہمیں مطلع کیا گیا کہ اس کیس میں ٹیکس سال 2011سے متعلق متعلقہ اثاثے کی رقم ٹیکس دہندہ کی جانب سے دی گئی اس لئے اس پر ٹیکس دہندہ کے نام پر رکھا گیا یہی چیز ویلتھ سٹیٹمنٹ کی سیریل نمبر12 میں ظاہر کی گئی جو ان حالات میں انتہائی مناسب کالم تھا اور ایسے اثاثوں کو ظاہر کرنے کی فیلڈ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سال 2015میں ایس آر او 841(1)2015،26اگست2015سیریل نمبر14میں ایک نیا کالم شامل کیا گیا تا کہ دوسرے نام پر اثاثوں کو ظاہر کیا جا سکے ، یہ متعلق فارمیٹ میں سے کسی اہم تبدیلی سے متعلق بڑی منتقلی تھی ، ظاہری طور پر نئے بیان شدہ فارم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اور یہ حقیقت ہے کہ 30جنوری2015سے پہلے کسی دوسرے شخص کے نام پر اثاثوں کو سیریل نمبر12میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی گو کہ اس سیریل کا مقصد شریک حیات ، چھوٹے بچوں یا دوسرے زیر کفالت افراد کے نام پر صرف اثاثوں کو ظاہر کرنا تھا ، ٹیکس دہندہ کی جانب سے اس کیس میں ظاہر کیا گیا کہ بیٹی (مریم نواز) اور زیر کفالت نہیں اور اسے ٹیکس سال 2011میں مناسب کالم میں شامل کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ٹیکس دہندہ نے سال 2011میں جوویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کرائی اسے سیریل نمبر18میں ظاہر کیا گیا۔ بیٹی کو اس دوران فیملی ممبران کی تعداد میں شامل نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیٹی کو ٹیکس دہندہ (نوازشریف) کی جانب سے زیر کفالت قرارنہیں دیا گیا تھا۔یہاں یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ترمیم 2015جس کا اوپر بھی حوالہ دیا گیا ہے اور سریل نمبر12مناسب کالم تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اصطلاح’’زیر کفالت‘‘ کی آرڈیننس اور قواعد میں تشریح نہیں کی گئی تاہم یہ اصطلاح مختلف مقامات پر آرڈیننس رولز کے متن میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔ رپورٹ میں کئی حوالے بھی دیے گئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مندرجہ بالا حقائق اور کیس کی صورتحال ، آرڈیننس کی پروویڑنز اور ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ٹیکس دہندہ اور اس کی صاحبزادی جیسا کہ ویلتھ سٹیٹمنٹ میں قراردیا گیا یہ ٹیکس سال 2011-12کے مطابق درست ہیں اور اس سے آرڈیننس کی اس حوالے سے نافذ پروویڑن کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہمیں اس بات پر اعتماد ہے کہ یہ رپورٹ آپ کے مقاصد پر پوری اترے گی ، اگر مزید بھی ضرورت پڑی تو اے ایف فارگوسن اینڈ کمپنی مکمل تعاون کرے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہماری رائے ، حقائق، اور ماخوذات پر مبنی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ہماری رائے آج تک کے قانون کے مطابق ہے کیونکہ قوانین دن بدن تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور کوئی بھی تبدیلی اس رائے کو متاثر کر سکتی ہے۔ مزید کہا گیا کہ ایڈوائس ، قانون کی تشریح اور ٹیکس حکام کے ساتھ ہمارے تجربات پر مبنی ہیں ، یہ ضروری نہیں کہ ٹیکس حکام اوپر دی گئی رائے کو تسلیم کریں۔رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا کہ بیٹی (مریم نواز) پلاٹ کی خریداری کے وقت خود بھی ٹیکس فائلر تھیں اور انہوں نے بینک ذرائع سے رقم ادا کرکے پلاٹ اپنے نام کرایا، انہوں نے ٹیکس سال 2012۔13کے گوشواروں میں اپنا نام ظاہر کیا۔ گوشواروں کے فارم پر تبدیلی 2015میں ایف بی آر نے کی۔ فرگوسن کے مطابق ٹیکس دہندہ ( وزیراعظم نوازشریف ) اور بیٹی( مریم نوازشریف) کے ٹیکس گوشواروں میں کوئی تضاد نہیں وہ قانون کے مطابق ہیں۔ 2011میں مریم کا نام پلاٹ گوشواروں کے درست کالم میں درج کیا گیا۔ٹیکس گوشواروں میں مریم کا نام زیر کفالت افراد میں شامل نہیں تھا، خود کفیل اولاد کا کالم نہ ہونے پر مریم کا نام کالم نمبر12میں لکھنا پڑا۔ یہ رائے سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کے معاملے پر شریف خاندان کی طرف سے پاکستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم فرگوسن اینڈ کو سے طلب کی تھی جو کل بروز پیر سپریم کورٹ میں سابق اٹارنی جنرل اور اس کیس میں وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی جانب سے جمع کرائی جائے گی۔ ( م ن)