پشاور(این این آئی)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ضرب عضب اور بارڈر مینجمنٹ کی وجہ سے صوبے میں امن عامہ کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ ان کی حکومت نے افغان مہاجرین کو زبردستی بے دخل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حرکت کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اس مسئلے پر حقائق کے بر عکس سیاست بازی نہیں ہو گی ۔ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پاکستان میڈیا کلب کے 20 رکنی وفدکو صوبے میں ترقیاتی اور اب تک ہونے والے ریفارمز پربریفینگ دے رہے تھے جس میں ممتاز اینکرز پرسن سلیم صافی، مجاہد بریلوی، وسیم بادامی ، جاوید اقبال، فرید ریئس، شازیہ خان، سمیع الحق، لبنیٰ احمد، الماس بلوچ،فرح محمد، روف طاہر، سلطان شاہ، عمران ثناء اﷲ ، عنیقہ نثار، عالیہ شبیر ، ماہ نور علی، ثویبا ، محمود جان، ضیاء خان ، عرفان حیدر، حفیظ بلوچ اور راجہ مطلوب شامل تھے ۔ ایم پی اے شوکت یوسفزئی بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر خیبرپختونخو ا میں امن عامہ کی صورتحال بہتر کرنے پر آرمی چیف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاؤشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہاکہ بھتہ خوری، اغواء کاری جیسے جرائم ماضی میں معمول تھے مگر اب ان جرائم میں خاطر خواہ کمی آچکی ہے۔جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو صوبہ بے شمار مسائل کا شکار تھا ۔ غیر رجسٹر ڈ غیر ملکیوں کی وجہ سے الگ مسائل کا سامنا تھا ۔صوبے میں دس لاکھ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں جبکہ تین لاکھ چلے گئے ہیں ۔ پہلے جاتے پھر واپس آجاتے تھے جنکی وجہ سے عوام تنگ تھے۔ اب ہم نے کچھ کنٹرول کیا ہے ہماری سیکورٹی ادارے روزانہ ملتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ یہ ایک سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں۔دو نومبر کے احتجاج سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ نواز شریف خود کو احتساب کیلئے پیش کریں ورنہ ہنگامہ ہو سکتا ہے کیونکہ عوام تنگ آچکے ہیں۔ بے عزت ہو کر گھر جانے سے بہتر ہے کہ وہ حساب دے دیں۔پرویز خٹک نے کہاکہ پچھلی حکومت میں وہ بالکل نااُمید ہو چکے تھے اور ان میں سوچ پیدا ہوئی کہ وہ انقلاب کا حصہ بنیں گے کیونکہ وہ سٹیٹس کو کے خلاف ہیں۔ اسلئے انہوں نے پچھلی حکومت میں استعفیٰ دیا اور نظام کی تبدیلی کی خواہش پر عمران خان کا ساتھ دیا اور تہیہ کیاکہ جب بھی موقع ملے گا وہ اس نظام کو تبدیل کریں گے اور سرکاری اداروں کو عوامی توقعات کے مطابق فعال بنا کر خدمت کے قابل بنائیں گے ۔پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اختیارات کے ایک ہاتھ میں ارتکازسے کرپشن ، بدعنوانی اور اقرباء پروری سمیت دیگربرائیاں جنم لیتی ہیں اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اختیارات اداروں کو تفویض کئے ہیں تاکہ وہ مضبوط ہوں اور عوامی فلاح کیلئے اجتماعی دانشمندی سے بہتر فیصلہ سازی ہو ۔مقامی حکومتوں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کئے گئے ہیں 33 ارب روپے بھی مقامی حکومتوں کو جاری کئے گئے ہیں اور اُن کو پلان بھی دیا ہے کہ وہ وسائل کا ایسے استعمال کریں گے جس سے عوام کی فلاح مقصود ہو ۔ کرپشن کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماضی میں صوبے اور پورے ملک پر بدعنوان ڈاکوؤں کا راج تھا جس سے عوام کی مشکلات اور تکالیف میں اضافہ ہوا اس نہج تک پہنچنے میں جو بھی ذمہ دار ہے وہ اس سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا ۔ قانون سازی کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت کی ریفارمز اور ریکار ڈ قانون سازی صوبے میں اچھی حکمرانی کیلئے بنیاد فراہم کرے گی ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ہمارے پاس تبدیلی کا ایک نکاتی ایجنڈ ا تھا ۔ سسٹم کو ٹھیک کرنا اور اسے عوامی خواہشات کے مطابق بنانا ، قومی اداروں سے سیاست کا خاتمہ کرنا اور شفاف طریقے سے اس سے کام لینا ۔ ہم نے جو سسٹم بنایا اس میں سرکاری اہلکاروں کو ڈیلیور کرنا ہے ۔سیاسی مداخلت کے خاتمے سے اداروں نے ڈیلیور کرنا شروع کیا ہے ۔صوبے کے حال ، ماضی اور مستقبل کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس صوبے میں ڈاکٹروں، پولیس ، اساتذہ ، پٹوارپر سیاست ہو تی رہی جبکہ کرپشن برائی ہی نہیں تھی لیکن اس کا حال اس کے برعکس ہے ۔ہم نے احتساب قانون کا نفاذ کیا کیونکہ نیب میں بارگینگ کے ذریعے کرپٹ عناصر کو دوبارہ آگے آنے کا موقع ملتا تھا ۔صوبے کا حال احتساب ہے اور غلطیوں اور کرپشن پر باز پرسی ہے۔ہم کرپٹ لوگوں پر اعتماد ہی نہیں کرتے اور نہ خیبرپختونخوا اس کا متحمل ہو سکتا ہے احتساب کمیشن آزاد ہے ۔ حکومت کے اثر و رسوخ سے بھی آزاد ہے ۔اس کی انکوائریوں میں شفافیت ہے۔ ماضی میں یہ ایک ڈرامہ تھا جو ہم نے ختم کیا ہم نے رائٹ ٹو سروسز کا قیام کیا ، رائٹ ٹو انفارمیشن کا حق دیا ، وسل بلور کا قانون پا س کیا تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو اور باز پر سی کا عمل موجودہو ۔ مختلف اداروں میں خود مختار بورڈ ز بنائے گئے تاکہ کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ان اقدامات کی وجہ سے تعلیم ، صحت اور دیگر اداروں میں بہتری آئی ہے ۔ پرائیوٹ سکولوں سے سرکاری سکولوں میں طلباء کا آنا اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی تبدیلی ہے ۔ اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس سکیم کا انعقاد اور ہر ہسپتال مستقبل میں اپنے ہی ڈاکٹرز ، نرسنگ سٹاف اور دیگر سٹاف سے مزین ہو گا۔ پہلے پرائمری سکول میں دو کمرے اور اب چھ کمرے اور چھ اساتذہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے 40 ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے صوبے کا ماضی یہ تھا کہ اس میں 12ہزار کلاس رومز نہیں تھے حال یہ ہے کہ اس میں 3 ہزار اضافی کلاس رومز مکمل ہو چکے ہیں جبکہ اس کا مستقبل تمام سکولوں میں کلاس رومز اور دیگر تمام سہولیات جو پہلے موجود نہ تھیں فراہم ہو ں گی ۔ماضی کا تعلیمی نظام دگرگوں تھا جس سے ترقی ممکن ہی نہیں تھی موجودہ تعلیمی نظام ایک ایسی تعلیم یافتہ ورک فورس پیدا کرے گا جو قومی ترقی کیلئے بنیادی کردارادا کرے گی انہوں نے کہاکہ تعلیم، صحت ، کرپشن کا خاتمہ ، پٹوار سسٹم کو بہتر بنانا اُن کی حکومت کی ترجیحات ہیں ۔ پولیس سے جب مداخلت ختم ہوئی تو پولیس نے پروفیشنل لائنز پر کام شروع کیا لیکن اس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہے جو ڈسٹرکٹ سطح پر سیفٹی کمیشن ہیں حکومت نے مالی اور انتظامی خود مختاری دی اس کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا میں کمپیوٹرائزڈ پٹوار سسٹم ہو گا او ر کسی کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں ہو گی حکومت نے ایک شفاف نظام کے تحت این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کیں تاکہ یہ صوبہ تعلیم یافتہ اور حقدار لوگ چلائیں ۔انہوں نے کہاکہ کنفلکٹ آف انٹرسٹ قانون کے تحت کوئی سرکاری عہدہ رکھنے والا کاروبار نہیں کرسکے گا کرپشن ، فراڈ اور بدعنوانیوں کے خلاف وسل بلور قانون موثر رہے گا ہم نے ایک شفاف حکمرانی کا نظام دیا جس کیلئے مطلوبہ قانون سازی کی گئی اور اس سے شفاف حکمرانی کی راہیں نکلیں گی ۔ یہ سسٹم جب میچور ہو گا تو صوبے کی ترقی کا ضامن ہو گا ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم نے قانون سازی کی لیکن رولز آف بزنس پر کام کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ منفی سوچ کی بجائے مثبت سوچ ہمارے راستے آسان کر سکتی ہے ۔ بلین ٹری سونامی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ یہ سکیم صوبے کا مستقبل ہے جس سے وسائل بھی پیدا ہوں گے ماضی میں فارسٹ مافیا نے کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ ملکر جنگلات کو کھا پی لیا لیکن آج کے خیبرپختونخوا میں جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ارب پودے لگانے کا ہدف بنایا ہے۔ اس سال دسمبر تک 50 کروڑ ہو جائیں گے ۔ صنعت سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماضی کے حالات کی وجہ سے سرمایہ کار صوبے کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد پھر بحال ہو ا ہے۔ ہم نے پرکشش مراعات کے ساتھ ون ونڈ و آرپریشن کی سہولت دی ہے اور NoC کی شرط ختم کر دی گئی ہے ۔ ایک آزاد کمپنی ازدمک بنا دی ہے تمام صنعتی زونز اس کو دے رہے ہیں اور لوگ آرہے ہیں حطا ر میں ڈھائی ہزار ایکٹر زمین دو ماہ میں سرمایہ کاروں نے لے لی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاحت کے فروغ کیلئے اتھارٹیاں بنا دی ہیں جبکہ پہلے ڈی سی کے تحت تھا ۔ آزاد بورڈ بن رہے ہیں جن میں 30 فیصد نمائندگی پرائیوٹ سیکٹر کو دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ میں عوام کی بہتری کیلئے اُٹھنے والے ہر قدم کا ساتھی ہوں۔ میں اس اقدام کو پسند ہی نہیں کرتا جو مبہم ہو،عوام کے مفاد کے خلا ف ہو۔ میں ایک ایسے نظام کی داغ بیل ڈال چکا ہوں جس سے خیبرپختونخوا خوشحال اور ترقیافتہ ہو گا۔