اسلام آباد (این این آئی)سابق وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ کراچی سے پکڑا جانے والا اسلحہ الطاف حسین کا ہے ٗصطفی کمال اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خود کہتے ہیں کہ الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے‘ کراچی کے حالات کا ذمہ دار پرویز مشرف ہے۔ وہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قرارداد کا مقصد بھارت کو پیغام دینا ہے کہ ہم سب متحد ہیں قرارداد کے مراحل ہوتے ہیں یہ مسلسل پراسیس کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کی باتیں ہوتی تھیں پرویز مشرف کے دور میں نیٹو کے اسلحے سے بھرے کنٹینر لوٹے گئے۔ عزیز آباد سے پکڑا جانے والا اسلحہ الطاف حسین کا ہے کراچی میں را کا نیٹ ورک کام کررہا ہے ایم کیو ایم پاکستان اور مصطفی کمال خود کہتے ہیں کہ الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے۔
مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک پہلے کشمیر تک محدود تھی اب پورے بھارت میں پھیل چکی ہے، وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں 20کروڑ عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا، کلبھوشن یادیو کے ڈوزیئر اقوام متحدہ ا ور دنیا کے ہر فورم پر ثبوتوں کے سات پڑے ہیں، نواز شریف کام والا آدمی ہے بڑھکیں مارنے والا نہیں اسلئے،کہا گیا کہ 2018ء میں وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا اور نواز شریف جیل میں ہو گا ،مگر 2018ء میں و زیر اعظم نواز شریف ہی ہو گا اور جیل میں کون ہو گا اسکا فیصلہ خود کر لیں،جو آج یہاں گلے پھاڑ کر کہتے ہیں وہ سند ھ میں جا کراپنا جوش دکھائیں عدالت اپکی کرپشن بے نقاب کر رہی ہے ، اگر ایسے کرپشن چلتی رہی تو 2028 میں بھی پیپلز پارٹی نہیں جیت سکے گی،پانامہ میں وزیر اعظم نوا زشریف کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ پانامہ پیپرز میں نواز شریف نہیں بے نظیر بھٹو کا نام ہے ،پانامہ پیپرز کی 560 آف شور کمپنیوں میں سے 558 پیپلز پارٹی کے لوگوں کی ہیں۔وہ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ قومی اور بین الاقوامی ہے۔ جس طریقے سے کشمیر میں تباہ کاریاں ہو رہی ہیں کشمیری بزرگوں ‘ بیٹیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ظلم ڈھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک پہلے کشمیر تک محدود تھی جو اب پورے بھارت میں بھی چل چکی ہے۔ بھارت میں آزادی کی تحاریک جاری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر میں 20کروڑ عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔
کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کو بھارت نے خود تسلیم کیا اور اقوام متحد میں لے کر گیا۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی حکومت نے ہمیشہ سنجیدگی سے کام لیا۔ مودی سرکار اور بھارتی حکومت دباؤکا شکار ہے، کشمیر دنیا کا واحد اٹوٹ انگ ہے جہاں فوج لگی ہے، اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم کی تقریر کی تعریف کی، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کشمیر کے معاملے کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس ایوان میں بہت سی باتیں کی گئیں مگر وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر پر آسیہ اندرانی جو آج جیل میں ہیں میں ان کا یہاں پڑھیں ہمیں دیکھنا ہو گا کہ میر وا عظعمر فاروق نے وزیر اعظم کی تقریر پر کیا کہا۔ علی گیلانی نے مشرف کو کہا تھا کہ اس نے کشمیر کے معمالے پر غداری کی۔ وہی علی گیلانی نواز شریف کو کہتا ہے کہ نواز شریف نے تمام پرانے داغ دھو دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں وزیر اعظم پر تنقید کی گئی کہ انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا،مگر کلبھوشن یادیو کے ڈوزیئر اقوام متحدہ ا ور دنیا کے ہر فورم پر ثبوتوں کے ساتھ پڑے ہیں نواز شریف کام والا آدمی ہے بڑھکیں مارنے والا نہیں۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سکھوں کی فہرستیں بھارتی انٹیلی جنس چیف کو دی گئیں ، اتنا جوش خالصتان کی تحریک کیاڈے تباہ کرتے ہوئے دکھاتے،بینظیر بھٹو شہید کا فہرستیں دیے جانے پر شکریہ ادا کیا گیا۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے شور مچانا شروع کر دیا اور مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار کے نعرے لگائے۔جس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ خود کوجمہوریت پسند پارٹی کہتے ہیں ان کے تماشے دیکھیں، انہیں یہ بتانا ہوگا کہ انہیں چھلانگیں مارنا کس نے سکھایا ، انہوں نے کہا کہ ہم میں بات سننے کا حوصلہ ہے آپ کہتے ہیں کہ 2018ء میں وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا اور نواز شریف جیل میں ہو گا ،مگر 2018ء میں و زیر اعظم نواز شریف ہی ہو گا اور جیل میں کون ہو گا اسکا فیصلہ خود کر لیں،جو آج یہاں گلے پھاڑ کر کہتے ہیں وہ سند ھ میں جا کراپنا جوش دکھائیں جہاں عدالت نے کہا ہے کہ لاڑکانہ میں 91ارب خرچ کئے ہیں مگر وہاں حقیقت میں ا یک روپیہ بھی نظر نہیں آتا۔ اگر ایسے کرپشن چلتی رہی تو 2028 میں بھی پیپلز پارٹی نہیں جیت سکے گی۔ کہا جاتا ہے کہ پانامہ میں وزیر اعظم نوا زشریف کیخلاف تحقیقات کی جائیں ،مگر میں کہتا ہوں کہ پانامہ پیپرز میں نواز شریف نہیں بے نظیر بھٹو کا نام ہے پانامہ پیپرز کی 560 آف شور کمپنیوں میں سے 558 پیپلز پارٹی کے لوگوں کی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک پارٹی اے پی سی میں شرکت کرتی ہے اور مشترکہ اجلاس میں نہیں آتی۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ ان کی وجہ سے کل بھارت میں باتیں کی گئیں کہ پاکستان میں ایک پارٹی نے کشمیر کے حوالے سے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیر کی جنگ میں کشمیریوں کا ساتھ جاری رکھے گا۔ کشمیریوں کے ساتھ تب تک رہیں گے جب تکوہ آزادی کا سورج نہیں دیکھ لیتے۔
موضوعات:پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس