کراچی (این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تنظیم سازی کے عمل کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ مسلم لیگ ( ن) کی حکومت کے خلاف آئندہ تحریک چلانے کے لئے تنظیم سازی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ انہوں نے یہ ہدایت ہفتہ کو بلاول ہاؤس میں کوآرڈی نیشن کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دی۔ اجلاس میں سندھ، بلوچستان ،خیبرپختونخوا، وسطی اور جنوبی پنجاب کی کوآرڈی نیشن کمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی، جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر تفصیلی غور کیا گیا اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے بعض تجاویز دی گئیں۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی یونین کونسلز سے صوبوں تک تنظیم سازی کو جلد مکمل کیا جائے۔ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی سندھ میڈیا سیل میں پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر مولا بخش چانڈیو نے اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر شوکت بسرا، راشد حسین ر بانی، سینیٹر صابر بلوچ، اعجاز بلوچ، منظور عباس، لطیف مغل، حبیب الدین جنیدی اور دیگر بھی موجود تھے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اجلاس میں پانچوں پراونشل کوآرڈی نیشن کمیٹی نے تنظیم سازی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔رمضان المبارک میں تنظیم سازی کے کام میں کچھ تعطل پیدا ہوگیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہدایت کی کہ مسلم لیگ ( ن) کی حکومت کے خلاف آئندہ تحریک چلانے کے لئے تنظیم سازی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم سازی کا کام بہت مشکل ہے۔ بہت سی جماعتیں یہ کام نہیں کر پائی ہیں لیکن ہم نے اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ چیلنج قبول کیا۔ تنظیم سازی کے کام کو مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر ضرورت ہوئی تو مقررہ مدت میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامالیکس، احتساب اور بجلی کی لوڈشیڈنگ خاص طور پر دیہی سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت کے سلوک کے حوالے سے اجلاس میں تفصیلی غور وخوض کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تنظیم سازی کا عمل جلد مکمل کیا جائے تاکہ کسی ممکنہ تحریک میں باقی اپنی سیاست طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بہت سے مسائل سر اٹھا رہے ہیں اور وفاقی حکومت انہیں حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اگر وفاقی حکومت اسی طرح لیت ولعل سے کام لیتی رہی اور یہی صورت حال رہی تو پھر معاملات اس طرح نہیں چلیں گے۔ آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی کے عمل کو جلد مکمل کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی کی واضح پوزیشن ہے۔ اس ساری مہم کی قیادت پیپلز پارٹی نے کی۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں اگر اکٹھی چلیں تو وہ بہتر پوزیشن میں ہوں گی لیکن اس سے پہلے ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہونا ضروری ہے۔ اس سوال پر کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں کہ اپوزیشن ٹی او آرز پر متفق نہیں ہورہی، اس پر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انہوں نے کہا کہ جو اپوزیشن جماعتیں اکیلی اڑان کی بات کرتی ہیں، وہ اتحاد کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن کا ایسا کردار ادا کرے گی کہ دنیا اس پر فخر کرے گی۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ٹی او آرز نہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمیٹی ناکام ہوگئی۔ ہم نے حکومت کے سارے نکات مان لئے تھے لیکن ہم نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہمارے سوالات کو بھی مدنظر رکھے۔ حکومت ہٹ دھرمی کا شکار ہے۔ ہم وہی سوالات پوچھ رہے ہیں جو پاناما لیکس کے حوالے سے پوری دنیا، قوم اور میڈیا نے پوچھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے بیرون ملک گئے تھے اور جب چاہیں گے واپس آجائیں گے۔ وہ جب ملک میں تھے تو ہم سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی کو کیوں نہیں چلا رہے۔ حالانکہ کے وہ اس وقت تعلیم کی غرض سے بیرون ملک تھے۔ اب چیئرمین پارٹی کو چلا رہے ہیں تو یہ سوال کیا جارہا ہے کہ شریک چیئرمین ملک میں کیوں نہیں ہیں۔ اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات کیوں لگائے جارہے ہیں، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ میاں شہباز شریف اپنی تقریروں میں پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے اور پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرتے تھے۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف افتخار چوہدری کی عدالت میں مقدمہ درج کیا تھا پھر بھی ہم پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس سوال پر کہ تنظیمی عمل مکمل کرنے کے لئے کمیٹیوں کو مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم مقررہ مدت میں توسیع نہیں کرانا چاہتے۔ کچھ صوبوں میں اچھا کام ہوا ہے اور کچھ جگہوں پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر سینیٹر صابر بلوچ نے کہا کہ ہم نے چیئرمین سے کہا ہے کہ تنظیم سازی کے عمل کو مکمل کرنے کے لئے مزید 2 ماہ کا وقت دیا جائے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ایک اور سوال پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ یہ پاناما پیپرز، احتساب اور لوڈشیڈنگ کے خلاف تحریک کے مسئلے پر سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی تشخص کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہر ضلع میں تنظیمی کمیٹی کے اجلاس میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں اور وہ اپنی رائے دیتے ہیں۔ لوگوں کا جوش وجذبہ بھی موجود ہے اور لوگوں کو یہ بھی علم ہے کہ ان کا راستہ کیا ہے۔ قمر زمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کل بھی نظریاتی جماعت تھی اور آج بھی نظریاتی جماعت ہے۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ پیپلز پارٹی جلد اپنے جوہر دکھائے گی۔ ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف پیپلز پارٹی نے جو ریفرنس دائر کیا ہے، اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا جلد تقرر ہوجائے گا لیکن مسلم لیگ (ن) کے خلاف فیصلے مشکل سے آتے ہیں۔