اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کی جانے والی 2015ءکرپشن انڈیکس رپورٹ میں اگرچہ پاکستان کو بہترین اسکور دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت، سری لنکا، چین، ایتھوپیا، نائیجر اوردیگر کے مقابلے میں کرپشن کے لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن بدتر ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی حالیہ پریس ریلیز میں درست انداز سے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سارک ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے 2015ءمیں کرپشن کے خلاف کارکردگی میں ایک پوائنٹ زیادہ حاصل کیا ہےجنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق لیکن اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ پاکستان بھارت سے 37 درجے پیچھے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پاکستان 53واں انتہائی کرپٹ ملک ہے تو بھارت 90واں انتہائی کرپٹ ملک ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 30 ہے جبکہ بھارت نے پاکستان سے 8 پوائنٹس بہتر یعنی 38 اسکور حاصل کیا تھا۔ سری لنکا پاکستان سے 29 جبکہ چین 32 درجے بہتر ہے۔ انڈیکس میں چین اور سری لنکا کا اسکور 37 ہے، ایتھوپیا نے 33 جبکہ نائیجر نے 34 اسکور حاصل کیا اور دونوں ملک بالتر تیب پاکستان سے 13 اور 15 مرحلے بہتر ہیں۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان چیپٹر نے اس رپورٹ کی تشریح کچھ اس طرح کی کہ جیسے پاکستان نے اپنے پڑو سیوں چین، بھارت، ایران، افغانستان، بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال کے مقابلے میں کرپشن کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹرانس پیرنسی کے برلن ہیڈکوارٹرز کی رپورٹ کی بنیاد موازنہ تھی جس کے تحت پاکستان بہتری کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ دیگر نے اپنا پرانا اسکور برقرار رکھا ہے یا پھر 2014ءکے انڈیکس کے مقابلے میں ایک یا دو نمبر کم حاصل کیے ہیں۔ بصورت دیگر اگر چین، بھارت، ایران، افغانستان، بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال کے اسکور کا مقابلہ کیا جائے تو پاکستان افغانستان، بنگلادیش، نیپال اور ایران سے تو بہتر ہے لیکن چین، بھارت اور سری لنکا کے مقابلے میں کارکردگی میں بدتر ہے۔ مجموعی طور پر 168 ملکوں کے دو تہائی نے 2015ئ کے اسکور میں 50 سے کم اسکور حاصل کیا (جس میں پاکستان بھی شامل ہے)۔ فہرست میں 0 کے قریب اسکور حاصل کرنے کا مطلب انتہائی کرپٹ جبکہ 100 کے قریب اسکور حاصل کرنے کا مطلب شفاف ملک کا درجہ ہے۔ 2015ئ کی رپورٹ میں ڈنمارک نے کرپشن سے پاک ملک ہونے کا اپنا اعزاز ایک مرتبہ پھر پہلی پوزیشن لے کر برقرار رکھا۔ تاہم، 2014ئ کے مقابلے میں ڈنمارک کا ایک پوائنٹ کم ہوا اور اس کا اسکور 91 رہا۔ ٹرانس پیرنسی کی تشریح کے مطابق، پاکستان نے ڈنمارک سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی، حالانکہ ڈنمارک پاکستان سے 115 اسٹیج اوپر ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے ماضی کے اسکور کے مقابلے میں بہتری لا رہا ہے اور 2013، 2014 اور 2015 میں بالترتیب بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جب سے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے رینکنگ جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس وقت سے پاکستان نے بدترین نتائج 1996 اور 1997 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوران دیئے تھے جب اسے دوسرا اور پانچواں انتہائی کرپٹ ملک قرار دیا گیا تھا۔ ان دو برسوں کے دوران اسکور بالترتیب 10 اور 25 تھا۔ 1997 سے پاکستان نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ پرویز مشرف کے دور میں کیا جب مختلف برسوں میں اس کا اسکور 21، 22، 23 اور 24 رہا۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں پاکستان کا اسکور گر کر 23 ہوگیا۔ 2012ءسے پاکستان مسلسل بہتری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ 2012 میں پاکستان کا اسکور 27 تھا، 2013 میں اسکور 28 ہوگیا جبکہ 2014 میں مزید بہتری لاتے ہوئے پاکستان نے 29 اسکور حاصل کیا اور اب 2015 میں یہ اسکور 30 تک جا پہنچا ہے