اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے 2015میں جہاں کئی کامیابیاں اپنے نام کیں وہیں وہیں ا ن کوکئی مشکلات اورناکامیوں کابھی سامناکرناپڑا۔عمران خان کی زندگی 2015میں مختلف نشیب وفرازکاشکاررہی ۔اس سال عمران خان سیاسی حوالے سے کافی خبروں میں رہے ۔ تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل حکومتی اداروں پر تنقید ، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور عمران کی ریحام خان سے شادی اور بعد میں علیحدگی نے ان کے سیاسی تشخص کو کافی نقصان پہنچایا۔6 جنوری 2016ءکو عمران خان ریحام خان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور میڈیا پر بھی اپنا اور ریحام کے باضابطہ رشتے کا اعلان کر دیا۔عمران خان کو ریحام سے شادی کی وجہ سے مذہبی ، سیاسی اور اعتدال پسند لوگوں کی جانب سے شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر عمران اس رشتے کو زیادہ دیر تک نبھا نہ پائے اور صرف نو ماہ بعد ہی 30 اکتوبر 2015ءمیں ہی دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔بلدیاتی انتخابات سے ایک دن پہلے ریحام سے علیحدگی کی خبر نے میڈیا کی ساری توجہ عمران ریحام طلاق کی جانب مبذول کر دی اور یقیناً اس خبر نے عمران کو سیاسی طور پر بھی ایک جھٹکا دیا اور وہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔عمران خان کی طرف سے دوبارہ دھرنوں کے اعلان کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جو ڈیشل کمیشن پر اتفاق ہو گیا۔عمران خان کی طرف سے حلقہ این اے 122 میں ووٹوں کی منتقلی اور تصدیق کے الزامات لگائے گئے اور اسے الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا گیا بعد ازاں الیکشن ٹربیونل کی طرف سےاس حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا گیا۔11 اکتوبر 2015 میں حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور تحریک انصاف کے علیم خان میں پر جوش مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق نے تحریک انصاف کے عبد العلیم خان کے 72،043 ووٹوں کے مقابلے میں 76،204 ووٹ حاصل کیے اور دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔دوسری طرف این اے 147 میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھی انتخاب ہوا جس میں تحریک انصاف کے شعیب صدیقی نے مسلم لیگ ن کے محسن لطیف کو شکست دی۔2015 میں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو دوسری جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہوئی۔31 اکتوبر 2015 کو پنجاب اور سندھ کے لیے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا جس میں مسلم لیگ ن نے پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کو خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ کی 21 نشستوں کے مقابلے میں 16نشستیں حاصل کیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے این اے 154 لودھراں میں انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے بعد دوبارہ انتخاب کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے 23 دسمبر 2015کو پولنگ ہوئی۔اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کے محمد صدیق خان بلوچ اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین میں مقابلہ ہوا یہ انتخاب تحریک انصاف کے جہانگیر ترین نے جیت لیا، جہانگیر ترین نے مسلم لیگ کے صدیق بلوچ کے 99312 ووٹوں کے مقابلے میں 138573 حاصل کیے۔سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ پارٹی چیئر مین عمران خان سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے اور صحت کے علاوہ تعلیمی میدان میں بھی کام کیا۔ 29دسمبر2015کو لاہور کے بعد پشاور میں بھی عمران خان نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کا افتتاح کیا۔ عمران خان کی طرف سے بار ہا یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کی پارٹی نے خیبر پختونخوا میں بہتر کاکردگی دکھائی ہے سو آئندہ عام انتخابات میں ان کی کامیابی یقینی ہے۔2015میں تحریک انصاف نے 4 ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جس میں سے دو میں کامیابی اور دو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 2015 میں ہونےوالے بلدیاتی انتخابات میں خیبر پختونخوا کے علاوہ پی ٹی آئی کو عوام کی طرف سے دوسرے صوبوں میں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔