اسلام آباد (نیوزدیسک )عمران خان اورریحام خان میں طلاق ہونے کامعاملہ 26اکتوبرکوپیش آیااوراس پرکئی تبصرے بھی ہوچکے ہیں ۔یہ عمران خان کی کتاب کا ایک باب تھا۔ کیا ان کی جانب سے اپنی زندگی کے ایک حصے کی کہانی لکھ دینا عوامی مفاد میں تھا؟ وہ بلاواسطہ طور پر اپنی دوسری شادی کے حوالے سے کئے جانے پر غصے میں کیوں آگئے۔جواب صحافی کا حق تھا نہ کہ اس سے اوقات کی بات کی جاتی۔ اگر کسی غیر ملکی صحافی کی جانب سے ایسا سوال کیا جاتا تو کیا وہ اسی طریقے سے جواب دیتے۔ مجھے یہ کتاب اور یہ باب بہت دلچسپ لگااور اسی لیے میں ان کے سیخ پا ہونے پر بہت حیران ہوا۔ مثال کے طور پر مجھے یہ بات پہلے معلوم نہیں تھی کہ ان کی مرحوم والدہ نے انہیں17یا18سال کی عمر میں مشورہ دیا تھاکہ وہ کسی مغربی خاتون سے شادی نہ کریں کیونکہ اسے ہمارے معاشرے کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مشکلات پیش آسکتیں ہیں۔ انکی اپنی لکھی ہوئی سطروں میں انہوںبتایا کہ ان کی شادی میں تاخیر کیوں ہوئی اور عام طور پر وہ اس سے اجتناب کیوں کرتے ہیں۔ جب ان کے لیے ایک شادی کی پیشکش آئی تو اس کے بعد انکے والد انہیں ایک دوست کے گھر لڑکی دکھانے لے کر گئے۔ اسی کتاب میں انہوںنے اپنی پہلی بیوی جمائما کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بھی لکھا، اور یہ بھی تذکرہ کیاکہ وہ ایک عشائیے میں کیسے ملے۔ پھر انہوںنے ان کے ساتھ اپنی 9 سالہ شادی شدہ زندگی کا بھی ذکر کیا ، انکی سیاسی مصروفیات نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا، جس کا نتیجہ بالآخر طلاق کی صورت میں نکلا۔ کیا یہ معاملات نجی اور زاتی نہیں تھے ، کیایہ کتاب عمران خان کے بجائے کسی اور نے لکھی۔ اس لیے جب انکی ریحام کے ساتھ طلاق کی بات آئی تو میڈیا کے خلاف اس قدر سخت ردعمل کا مظاہر ہ کیوں۔ریحام لندن میں ہیں اور اپنی طلاق کے بارے میں انہوںنے جواب دینے سے گریز کیا ، انہوں نے کم ازکم میڈیا کا سامنا کرنے کی ہمت تو کی، اور جب اس بارے میں براہ راست سوال کیا تو وہ غصے میں بھی نہیں آئیں ، شاید ان کا صحافتی تجربہ کام آگیا ، لیکن جب انہوں نے طویل المدتی تعلق کے بارے میں بات کی تھی تو انہوں نے عمران خان کوایک بڑا واضح پیغام بھیجا تھا ، جوکہ ان کی ایک سال میں ہی علیحدگی کے بارے میں ایک اشارہ تھا۔روزنامہ جنگ کے صحافی مظہرعباس کی رپورٹ کے مطابق دلچسپ طور پر دونوں کی پہلی شادیاں دوسری شادی سے زیادہ کامیاب رہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات خاصی تکلیف دہ ہے۔ وہ اور ان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان جس کرب سے گزررہے ہیں اسے سمجھا جاسکتا ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ جلد اس مشکل دور سے نکل آئینگے۔ ہاں، شادی اور طلاقیں ذاتی معاملات ہیں بشرط یہ کہ سیاستدان انہیں اپنی حد تک رکھیں اور میڈیا سے کھیلنےکی کوشش نہ کریں۔ وہ سوال پر لحاظ سے متعلقہ اور بروقت تھا کیونکہ طلاق کے بعد عمران خان پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے تھے۔ جنوری 2015میں عمران خان نے اپنی شادی کا اعلان کرنے کیلئے میڈیا کا ہی کیوں انتخاب کیا۔ کیا وہ ذاتی معاملہ نہیں تھا؟ اور دس ماہ بعد ان کے ترجمان کی جانب ٹوئٹ کیے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیاوہ ذاتی معاملہ نہیں تھا؟ کیا اس مخصوص روز یہ معاملہ عمران خان کا نہیں تھا؟ انہوںنے اپنی شادی کا اشارہ بھی دھرنے کے دوران دیا۔ اس لیے جب آپنے خود ان تمام سرگرمیوں کیلئے میڈیا کو چنا تو صحافی کی جانب سے ایک سادہ جواب دینے پر انہوںنے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا۔ ان کی شادی کے بعد اس موضوع پر اور یہ جوڑا کس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھا ہے، ا س پر ٹاک شوز اور پروگرام ہوئے۔ کس نے شادی کی پیشکش کی اور کیسے، اس میڈیا کو خاموش کیوںنہیں کرایا گیا؟ اس وقت صحافیوں کو ان کی اوقات کیوں نہیں دکھائی گئی ؟ شاید اس لیے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ بالکل کچھ اخلاقی تقاضے ہوتےہیں اور نجی معاملات میں انہیں پورا کیا جاتا ہے۔ پہلی بات اس کا مقصد کردار کشی نہیں ہونی چاہیے ، دوسری، کسی سیاستدان یا عوامی نمائندے کی نجی زندگی کے بارے میں کوئی خبر دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیےکہ خبر بالکل درست اور لازمی طور پر ناقابل تردید حقائق کی بنیاد پر دی جائے۔ تیسری، ایسی کسی بھی صورت میں ہمیشہ یہ بات اہم ہوتی ہےکہ متعلقہ شخص یا اشخاص کا موقف لیاجائے یا اس خبر کے ذریعے ایک سے زائد ہوں۔ اب ا?یا سینئر صحافی عارف نظامی نے یہ خبر دے کر درست کیا یا نہیں جیساکہ انہوں نے ان کی شادی کی خبر دے کر کیا تھا۔ کیا وہ شاباش کے مستحق تھے یا عمران خان کی جانب سے ایسے الفاظ کے مستحق تھے جیسے انہوں نے ایک نوجوان صحافی کے خلاف استعمال کیے۔ گزشتہ چند سالوں میں متعدد نوجوان سیاستدانوں کی شادیاں ہوئیں اور کچھ سینئر سیاستدانوں نے دوسری اور تیسری مرتبہ شادی کی۔ ان کی خبریں کیوں نہیں ہیں۔ اس کا جواب بہت سادہ ہےکہ وہ اپنی نجی زندگی پر روشنی نہیں ڈالنا چاہتے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بعد پاکستان کے انتہائی سحر انگیز سیاسی رہنماکا معاملہ یہ ہے۔ ان کے ماضی اورحال میں دنیا بھر میں دلچسپی لی جاتی ہے۔ کسی انفرادی سیاستدان پر بھی اتنی کتابیں نہیں لکھیں گئی، جن ذاتی زندگی کے بارے میںبتایا گیا ہےکیونکہ وہ اپنے دور کرکٹ کی متاثر کن ترین شخصیتوں میں شامل ہیں ، ان کی غیر شادی شدہ زندگی ، ان کا طرز زندگی، ان کے ملبوسات اور اسٹائل سب ہی کچھ پر میڈیا میں بات کی جاتی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں جوکچھ ہوا اس سے احتراز کیاجاسکتا تھآ۔