کراچی (نیوزڈیسک) شیدی گوٹھ کے قریب اندہوناک حادثہ ، تیز رفتار ریتی بجری ڈمپر طلبہ سے بھرے رکشہ پر چڑھ گیا، دو طالبات سمیت 3افراد ہلاک ، ایک طالبہ کا سر تن سے جدا ، دوسری طالبہ سمیت 2افراد زخمی حالت میں اسپتال جاتے ہوئے ہلاک، 6 طلبہ سمیت 8افراد شدید زخمی، تشویشناک حالت میں جناح اسپتال منتقل،ڈمپر ڈرائیور فرار، سینکڑوں مشتعل افراد کا روڈ پر دھرنا، ڈمپر کو جلانے کی کوشش، سیاسی جماعتوں کے مقامی سربراہ موقع پر پہنچ گئے۔ ریتی بجری کی چوری نے ملیر تباہ کردیا، اب ڈمپر انسانی جانوںکاضیاع کر رہے ہیں، ڈمپر تحویل میں لیکر ریتی بجری چوری بند کی جائے:علاقہ مکینوںکا مطالبہ۔تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز دوپہر کے قریب اسکول سے چھٹیاںملنے کے بعد آٹھ سے زائد معصوم طلبہ و طالبات حسب معمول رکشہ میں سوار ہوکرمیمن گوٹھ سے شیدی گوٹھ جا رہے تھے، کہ مونوٹیکنیکل کالج کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آنے والا تیز رفتار ریتی بجری کاڈمپر رکشہ پر چڑھ دوڑا،رکشہ میںسوار طلبہ وطالبات زخمی ہوکر تڑپنے لگے اور ہر طرف خون پھیل گیا، بچوںکی چیخ و پکار پر شیدی گوٹھ و ملحقہ آبادیوں سے بڑی تعداد میں لوگ موقع پر پہنچ گئے ، اسی دوران ڈمپر ڈرائیور فرار ہو گیا،جبکہ طالبات میں سے بارہ سالہ رخسا نہ بنت گل دین جوکھیو کاسر تن سے جدا ہو چکا تھا،اور دوسری پندرہ سالہ طالبہ نادیہ بنت محمداسلم جوکھیو اور 45 سالہ علی محمد خاصخیلی زخمی حالت میں اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں ہی ہلاک ہو گئے، دوسرے زخمی طلبہ راحیل ولد صلاح دین خاصخیلی، اطہر علی ولد محمدوریل خاصخیلی، سجاد علی ولدعبدالعزیز خاصخیلی، اختر علی ولد عبدالعزیز رکشہ ڈرائیور واجد جوکھیو و دیگر کو تشویش ناک حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ دوسری جانب حادثے والی جگہ پر موجودمشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگانے کی کوشش کی اور پتھرا و ¿ کیا موقع پر موجود جام عبدالکریم جوکھیو نے لوگوں کو ڈمپر کو آگ لگانے سے ر وک دیا،حادثہ کے باعث پورے ملیر میں شدید غم کی لہر پھیل گئی اور بڑی تعداد میں لوگ شیدی گوٹھ پہنچ گئے، جبکہ اطلاع ملتے ہی سیاسی رہنماجام عبدالکریم ، ایم ایل اے حکیم بلوچ، سلیم بلوچ، مرتضیٰ یار محمد، ایم پی اے ساجد جوکھیو و دیگر بڑی تعداد میں شیدی گوٹھ پہنچ گئے اور دکھی خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا، حادثے میں ہلاک و زخمی طلبہ کے سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ ہلاک طالبات رخسانہ اور نادیہ میمن گوٹھ کے نجی اسکول میں چھٹی اور آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں، جبکہ زخمی طلبہ، راحیل، اطہر علی، سجاد علی اختر علی و دیگر ہاشم خاصخیلی گوٹھ کے سرکاری مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے اور روزانہ واجد جوکھیو کے رکشہ میں آتے اور جاتے تھے۔