ہفتہ‬‮ ، 11 جنوری‬‮ 2025 

کیا عمران خان روایت توڑ سکیں گے؟

datetime 1  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوزڈیسک) قومی اسمبلی کے حلقے این اے۔122 لاہور میں ضمنی انتخاب محض سردار ایاز صادق بمقابلہ علیم خان یا حکمراں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ نہیں بلکہ 11 اکتوبر کو اس انتخابی حلقے کا نتیجہ پنجاب کے قلب میں شریف خاندان اور مقبول عام عمران خان کے مستقبل میں سیاسی منظرنامے کے رنگ ڈھنگ اور ماحول کو طے کر دے گا۔ اگر تحریک انصاف کے اُمیدوار علیم خان سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف حیران کن کامیابی حاصل کرتے ہیں تو یہ صرف ایاز صادق کی نہیں بلکہ شریف خاندان کی بھی شکست تصور ہوگی۔ دوسرے این اے۔122 پر تحریک انصاف کی کامیابی این اے۔125 میں ن لیگ پر دبائو بڑھا سکتی ہے، اس نشست پر خواجہ سعد رفیق کی اپیل سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے۔ تیسرے عمران خان کو حکومت پر دبائو بڑھانے کا موقع ملے گا اور وہ اسلام آباد کی جانب ایک اور مارچ کی کال دے سکتے ہیں، چوتھے عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھے گا، پانچویں بلدیاتی انتخابات کے لئے تحریک انصاف بہتر پوزیشن میں آ جائے گی اور عمران خان الیکشن کمیشن کو مزید دبائو میں لے سکتے ہیں۔ این اے۔122 اور این اے۔125 ان چار انتخابی حلقوں میں شامل ہیں جن کے نتائج کو عمران خان نے چیلنج کیا تھا اور جن کے گرد ان کی نوازشریف مخالف سیاست گردش کرتی ہے، لیکن اگر فوج اور رینجرز کی نگرانی میں تحریک انصاف کا اُمیدوار ضمنی انتخاب میں شکست کھا جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ نمبر۔ایک: مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کی پنجاب پر گرفت خصوصاً لاہور میں مزید مضبوط ہو جائے گی۔ نمبر۔دو : لاہور میں شریف خاندان کا قصہ ختم کرنے کے لئے عمران خان اور تحریک انصاف کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ نمبر۔تین: عمران خان 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا جواز کھو دیں گے۔ نمبر۔چار: نوازشریف حکومت کو ختم کرنے کے لئے ان کی مہم مزید کمزور پڑ جائے گی۔ نمبر۔پانچ: وہ الیکشن کمیشن کے خلاف اپنا مضبوط کیس بھی ہار جائیں گے۔ نمبر۔چھ: تحریک انصاف پنجاب میں اندرونی اختلافات مزید گہرے ہو جائیں گے، کیونکہ کئی رہنمائوں نے علیم خان کو اُمیدوار بنانے کی مخالفت کی۔ ان ضمنی انتخابات سے یہ بات بھی سامنے آ جائے گی کہ آیا 2013ء کے انتخابات کےبعد ان دو برسوں میں عمران خان کی مقبولیت بڑھی یا اس میں کمی واقع ہوئی۔ انہیں شریف برادران پرہلکی سی برتری حاصل ہے کہ دونوں بھائی اپنی سرکاری حیثیت میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ عمران خان کو اب بھی نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے۔ اکثر نے 2013ء کے انتخابات میں انہیں ووٹ دیا تھا شاید اب وہ ان کے اُمیدوار کو ووٹ نہ دیں۔ اسی طرح شریف برادران کو تاجروں اور قدیم لاہوریوں کی حمایت حاصل ہو لیکن 2013ء کے بعد سے اس میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ لوگ ان کی پالیسیوں اور ن لیگ پر خاندانی بالادستی سے خوش نہیں ہیں۔ ن لیگ کے پاس تحریک انصاف کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ٹیم موجود، پنجاب اور وفاق میں اس کی حکومتیں بھی ہیں۔ روایتی ووٹرز کا ذہن بنانے میں ان کا اہم کردار ہوگا۔ شریف برادران لاہور سمیت پنجاب میں اپنے حلقوں میں 1985ء سے ناقابل شکست ہیں لیکن وہ لاہور کے دیگر حلقوں کے بارے میں بھی حساس ہیں جنہیں وہ اسلام آباد تک پہنچنے کا راستہ تصور کرتے ہیں۔ اب عمران خان کا بھی یہی مقصد اور خواہش ہے۔ ایک غیرجانبدار شخص کے لئے شریف برادران نے کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کے باوجود لاہور کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ انہوں نے سوائے ’’بسنت‘‘ پر پابندی لگانے کے روایتی ثقافت کو نہیں چھیڑا۔ یہ پابندی عدالت کے ذریعہ لگی۔ بسنت تو عمران خان بھی میاں صلاح الدین صلی کی مشہور حویلی میں منایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ عمران خان یا بے نظیر بھٹو جیسے طاقتور حریفوں نے بھی شریف برادران کو ان کے انتخابی حلقوں میں براہ راست چیلنج نہیں کیا۔ بینظیر بھٹو کو پیپلزپارٹی کے حق میں لہر کی وجہ سے موقع ملا۔ اس لہر کو توڑنے کے لئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے نام سے اتحاد تخلیق کیا۔ بینظیر نے پھر موقع کھو دیا اور باقی انتخابات میں انہوں نے شریف برادران کوکبھی چیلنج نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا لیکن انہوں نے لاہور اور پنجاب کو اپنا گڑھ بنایا۔ جولائی 1977ء میں جب مارشل لاء لگا اور بھٹو مرحوم کو ضمانت پررہائی ملی تو انہوں نے پہلے لاہور ہی کا دورہ کیا جہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ جس نے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر دیا اور انٹلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کر دیئے۔ پھر 11 سال تک انتخابات نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی کا توڑ کرنے کے لئے مختلف حربے اختیار کئے گئے جیسے غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات، ریفرنڈم اور پیپلزپارٹی مخالف رہنمائوں کو آگے لانا شامل ہے۔ لاہور کو شریف برادران کے حوالے ہونے میں 11 سال کا عرصہ لگا۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو چار نشستیں ملیں اور 1990ء کے انتخابات میں اس کا صفایا ہوگیا۔ ووٹوں کا فرق 5 ہزار سے بڑھتے بڑھتے 30 ہزار سے 40 ہزار تک پہنچ گیا،لہٰذا 1985ء کے بعد سے انتخابات میں شریف برادران کو لاہور سے تقریباً واک اوور ملتا رہا۔لہٰذا عمران خان کے لئے آسان نہیں ہوگا البتہ انہیں نوازشریف کے دیگر سیاسی حریفوں پر یہ برتری ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین دور لاہور ہی میں گزارا۔ نوازشریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنمائوں جیسے چوہدری نثارعلی خان اور سردار ایاز صادق سے ان کی گہری دوستی رہی۔ سردار ایاز صادق نے 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کو شکست



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…