لیکن اس کا حجم اربوں روپے ہے اور کچھ کیسز میں یہ سیاسی رہنماوں کو بھی قتل کرنے کیلئے استعمال ہوئی۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان اور بیش قیمت زمینوں پر قبضہ کرکے رقوم وصول کیں اور مبینہ طورپر انہیں دہشت گردی ک کیلئے استعمال کیا۔وہ سیاستدان، بیوروکریٹس اور یہاں تک کہ پولیس افسران اس’ چین‘ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ بڑی رقوم اکثر ہتھیاروں کی خریداری کیلئے استعمال ہوئیں ، ہنڈی یا منی چینجرز کے ذریعے اربوں روپے کی رقوم منتقل ہوئیں ، جبکہ ایماندار افسران کو ایک طرف کردیا گیا۔ اس لیے کچھ تفتیش کاروں کادعویٰ ہے کہ اس کا خطرناک ترین حصہ بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس اور کچھ سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس کے علاوہ یہ پیسہ کچھ بین الاقوامی آپریشنز کیلئے استعمال کیا گیا۔ 9/11سے پہلے انڈر ورلڈ کی کراچی میں جڑیں تھیں ، اور اس نے اکثر اس غیر قانونی پیسے کااستعمال کیا اور بسااوقات منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد ہوئے۔لہٰذا جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اعلیٰ افسر یہ کہتا ہے کہ کرپشن، جرم، دہشت گردی اور سیاست کا آپس میں ربط ہے تواس سے ان حقیقی سیاسی کارکنان کی شدید حوصلہ شکنی ہوتی ہے ، جوکہ صاف ستھری سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔