اور الطاف حسین نے پاکستان کے بارے جو کچھ کہا کیا اسے جاری رکھنے دیا جائے ۔ جس پر ایم کیو ایم کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حکم امتناعی کے ذریعے الطاف حسین کی تصویر پر بھی پابندی عائد کر دی گئی اور پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوا ۔اگر دفاع پاکستان کی بات ہے تو ہمارے سیاستدان ، مذہبی شخصیات اور وکلاءبھی بہت کچھ کہتے ہیں ۔ عدالت تنقید پر پابندی عائد نہیں کر سکتی ۔ جس پر عدالت نے قرار دیا کہ الطاف حسین نے ”را “والوں سے کہا کہ وہ فیصلہ دیں ، سندھ تقسیم ہو کر رہے گا ، کارکن کمانڈو ٹریننگ لیں ، کلاشنکوفیں خریدیں ۔ کیا یہ جائز ہے ؟۔عدالت نے مزید قرار دیا کہ اگر آپ الطاف حسین کی طرف سے تازہ بیان حلفی دیں کہ وہ آئندہ ایسے بیانات نہیں دیں گے تو عدالت اپنے حکم پر نظر ثانی کر سکتی ہے ۔ اگر آپ Alliensکو بلائیں گے تو ہم نے بھی پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عدالت کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں،کسی بھی شخص یا فرد کو ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے کہا کہ الطاف حسین نفرت انگیز تقاریر نہ کرنے کی تحریری یقین دہانی کرائیں تو عدالت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہے ۔ عدالت نے وزارت داخلہ کی جانب سے الطاف حسین کی شہریت کا مبہم جواب مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تفصیلی جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزیدسماعت دو اکتوبر تک ملتوی کر دی۔