اسلام آباد( نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے اے آر وائی ٹیلی ویڑن چینل پر سپریم کورٹ اور اس کے فاضل ججز کے خلاف توہین آمیز پروگرام نشر کرنے کے حوالہ سے” توہین عدالت کی کارروائی “کے دوران اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر سلمان اقبال کا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ آئندہ سماعت پر اے آر وائی پر چلائےجانے والے 6توہین آمیز پروگراموںکی ویڈیو فلمیں عدالت کے ملٹی میڈیا سسٹم پر چلا ئی جائیں گی، جن کا جائز ہ لینے کے بعدعدالت فیصلہ جاری کرے گی جنگ رپورٹر رانا مسعود حسین کے مطابق جبکہ عدالت نے ضابطہ کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کے پراسیکوٹر / اٹارنی جنرل آف پاکستان، سلمان اسلم بٹ کو بھی آئندہ سماعت پر عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ہے۔واضح رہے کہ اس چینل نے یہ وطیرہ بنایا ہوا ہے کہ پہلے لوگوں کی پگڑیاں اچھالو،الزامات لگاﺅ اور بدنام کرواور جب عدالت بلائے ثبوت طلب کرے تو غلطی ہوگئی کہہ کر معافی مانگ لو۔جمعرات کودوران سماعت جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر غلطی سے کسی ایک پروگرام میں کوئی ایسی بات ہوجاتی تو اور بات تھی یہاں پر تو توہین آمیز پروگراموں پر پروگرام کئے گئے ہیں ، جن میں سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عدلیہ اور اس کے ججز کی توہین کی گئی ہے جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے لئے یہ لازمی نہیں ہے کہ توہین عدالت کا مرتکب معافی مانگے اور ہم اسے تسلیم بھی کرلیں جبکہ آپ تو درست طور پر معافی بھی نہیں مانگ رہے ہیں ، سپریم کورٹ کے ججز کی توہین پر ہمیں گھما پھرا کر مانگی گئی معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے بادی النظر میں یہ معافی نامہ بھی عدلیہ کا مذاق اڑانے اور بدنام کرنے کے مترادف ہے ، یہ کیسی معافی ہے کہ” صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آ تے بھی نہیں“ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ یہ کام ہوا ہے ، یہ تسلیم بھی کرتے ہیں اور یہاں آکر معافیاں بھی مانگتے ہیں ، اتنے پروگرام غیر ارادی طور پر نشر کیسے ہوگئے تھے ؟۔جسٹس اعجا ز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جمعرات کے روز اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر و ملزم سلمان اقبال اور اسی چینل کے ایک پروگرام ”کھرا سچ “کے میزبان و ملزم مبشر لقمان کے خلا ف سپریم کورٹ اور اس کے فاضل ججز ( سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ )کے خلاف توہین آمیز پروگرام نشر کرنے کے حوالہ سے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تو ملزم سلمان اقبال کے وکیل انور منصور نے ملزم کی جانب سے تحریری غیر مشروط معافی نامہ پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اے آر وائی کی یہ پالیسی ہے کہ یہ کسی بھی حالت میں عدلیہ یا ججز کی توہین یا تضحیک نہیں کرتا،میرے موکل کے ادارہ نے شعوری طور پر کسی بھی جج یا ادارہ کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ، جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ پہلے عدلیہ مخالف پروگرام نشر کرنے کیلئے مواد اکھٹا کیا جائے اور بعد میں کہا جائے کہ یہ دانستہ نہیں ہوا ہے ،ہمیں ایسے معافی نامہ کی ضرورت نہیں ہے، بادی النظر میں یہ معافی نامہ بھی عدلیہ کا مذاق اڑانے اور بدنام کرنے کے مترادف ہے ، انہوںنے کہا کہ سلمان اقبال کا موقف ہے کہ اگر کوئی ایسا پروگرام نشر ہوا ہے تو وہ اس پر عدالت سے معافی کے خواستگار ہیں اور انہوںنے مبشر لقمان کو بھی کہا ہے کہ وہ بھی فاضل ججز اور ان کے اہل خانہ کے حوالہ سے اپنے کمنٹس واپس لے، انہوںنے کہا کہ ٹیلی ویڑن چینلز پر اس نوعیت کے پروگرام براہ راست دکھائے جاتے ہیں ،اور ان کا موکل آپریٹنگ افسر نہیں ہے جو جاکر میزبان کے سرپر کھڑا ہوجائے اور کہے کہ یہ کریں اور یہ نہ کریں ،یہ ادارہ کا چیف ایگز یکٹو افسر ہے ،اور اس کے حوالہ سے براہ راست کسی قسم کی بھی شکایت نہیں ہے ،اس نے بطور سی ای او مبشر لقمان کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ ایسا پروگرام نہ کرے ، ایک دفعہ غلطی ہوگءہے ، اسے معاف کیا جائے ،جس پر اعجاز احمدچوہدری نے کہا کہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ یہ کام ہوا ہے ، یہ تسلیم بھی کرتے ہیں اور یہاں آکر معافیاں بھی مانگتے ہیں ، اتنے پروگرام غیر ارادی طور پر نشر کیسے ہوگئے تھے ؟جس پر انور منصور نے کہا کہ بطور چیف ایگزیکٹیو ان کے موکل کے لئے اتنے پروگراموں کی نگرانی ممکن نہ تھی ،اور اس پروگرام کے بعد کوئی نیا توہین آمیز پروگرام بھی نشر نہیں ہو اہے ، جس پر درخواست گزار توفیق آصف نے کہا کہ یہ ایک پروگرام نہیں تھا بلکہ اس نوعیت کے 6توہین آمیز پروگرام نشر کئے گئے ہیںاورمیںنے ان کی فوٹیج کی سی ڈیز بھی اپنی متفرق درخواست کے ساتھ لف کی ہوئی ہیں ، انہوں نے بتایا کہ اے آر ٹیلی ویڑن چینل پر 6مئی ,21مئی ،22مئی 26مئی ،28مئی اور 29مئی کو ایک ہی تسلسل کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور اس کے ججز کی توہین و تضحیک پر مبنی پروگرام نشر کئے گئےتھے ، جس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ان پروگراموں کی فلمیں دیکھیں گے ، انور منصور نے کہا کہ ملزم نے معافی مانگ لی ہے اس لئے اسے معاف کردیا جائے ، جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے کہا کہ عدالت کے لئے یہ لازمی نہیں ہے کہ توہین عدالت کا مرتکب معافی مانگے اور ہم اسے تسلیم بھی کرلیں جبکہ آپ تو درست طور پر معافی بھی نہیں مانگ رہے ہیں ،اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر غلطی سے کسی ایک پروگرام میں کوئی ایسی بات ہوجاتی تو اور بات تھی یہاں پر تو پروگراموں پر پروگرام کئے گئے ہیں ، جن میں سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عدلیہ اور اس کے ججز کی توہین کی گئی ہے ، آپ اس کارروائی میں اپنے موکل کا دفاع کریں ، دوران سماعت ملزم مبشر لقمان کے وکیل عابد ایس زبیری نے کہا کہ ان کے موکل نے تو خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہوئے غیرمشروط معافی مانگ رکھی ہے ،جس پر جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلےملزم مبشر لقمان کے معافی نامہ پر فیصلہ کیا جائے اور پھر سلمان اقبال کے کیس کی سماعت کی جائے ، بعد ازاں فاضل عدالت نے ملزم سلمان اقبال کا تحریری غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ آئندہ سماعت پر اے آر وائی پر چلائےجانے والے 6توہین آمیز پروگراموںکی ویڈیو فلمیں عدالت کے اندر ملٹی میڈیا سسٹم پر چلا ئے جانے کا بندو بست کیا جائے جبکہ توہین عدالت کی کارروائی کے پراسیکوٹر / اٹارنی جنرل کو بھی آئندہ سماعت پر عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 13اکتوبر تک ملتوی کر دی۔