اسلام آباد(نیوزڈیسک)عدالتی اصلاحات کے بارے میں سینٹ کمیٹی میں سابق سینیٹر اور قانونی ماہر ایس ایم ظفر نے اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں جن میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیارکو قواعد کے ماتحت بنانے اور موجودہ عدالتی نظام کے سرجیکل آپریشن کی تجویز پیش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سول اور فوج داری مقدمات میں عدالتوں کے نظر ثانی کے اختیارات کو ختم کر دینا چاہیے۔ بدھ کو سینٹ کی کمیٹی کااجلاس چیئرمین میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا جس میں ایس ایم ظفر اور دیگر قانونی ماہرین نے اپنی سفارشات پیش کیں کمیٹی کے ارکان کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سابق سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہاکہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان اور جو ڈیشل اکیڈمیوں کو خود مختار ہونا چاہیے اور ان میں حاضر سروس ججز کو ممبر نہیں ہونا چاہیے انہوںنے کہاکہ سول اور فوج داری مقدمات میں عدالتوں کے نظر ثانی کے اختیارات کو ختم کر دینا چاہیے اور جج فعال کر دار ادا کریں سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہاکہ تنازعات کے حل کےلئے متبادل نظام قائم کر نا چاہیے اس مقصد کےلئے 1940کے مصالحتی ایکٹ پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل کا سلسلہ بھی ختم کیا جانا چاہیے ۔سیکرٹری لاءاینڈ جسٹس کمیشن نے قانون پر عملدر آمد کےلئے پارلیمانی نگرانی کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا انہوںنے تجویز دی کہ عدالتی ادارے اپنے قوانین اور قواعد پر خود نظر ثانی کریں اور پارلیمانی کمیٹیوں کو رپورٹ دیں جبکہ پارلیمنٹ کو سالانہ رپورٹ بھی دی جانی چاہیے اس موقع پر عدالتی اداروں کی کار کر دگی میں بہتری اور ان کے ڈھانچے کے بارے میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں ایس ایم ظفر نے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی بنیادی وجہ نظام کی غیر فعالیت بتائی انہوںنے عدالتی نظام کے سرجیکل آپریشن کی تجویز پیش کی اور اس حوالے سے سفارشات دیں سابق مجسٹریٹ عبد المالک غوری کو کمیٹی نے ان کی اپنی پیشکش پر بلایا انہوںنے تجویز دی کہ جیوری سسٹم متعارف کرایا جائے مقامی پولیس سربراہ اور ضلعی جج پیشہ ور ہونے چاہئیں اور سارک ممالک کےلئے علاقائی عدالت بھی قائم کی جائے اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بھی اپنی تجاویز پیش کیں اور اسے ایک اہم معاملہ قرار دیا سینیٹر حاصل بزنجوں نے کہاکہ پارلیمنٹ تیزی سے انصاف کی فراہمی کےلئے نظام کو بہتر بنائے
مزید پڑھیے :حکومت کاپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کافیصلہ