معروف کالم نگار امر جلیل نے اپنے تازہ کالم میں تحریر کیا ہے کہ پاکستان میں محب وطن لوگوں کی کمی نہیں ہے وہ سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے، بھاگتے پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ وہ محب وطن چونکہ سیانے، دانا اور دانشور قسم کے لوگ نہیں ہوتے اس لئے پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر صرف کڑھتے رہتے ہیں اور کڑھتے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر پاکستان میں گنتی کے چند ایسے سیانے، دانا محب وطن، دانشور موجود ہیں جو کڑھنے کے علاوہ پاکستان کو درپیش مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ میں محب وطن ہوں، مگر میں سیانا نہیں ہوں۔ اس لئے پاکستان میں مسائل کے انبار دیکھ کر صرف کڑھتا رہتا ہوں۔
مزید پڑھے: عمرا ن خان اورریحام خان میں دوریاں ،دونوں الگ الگ کیوں رہ رہے ہیں ؟ ایک دلچسپ انکشاف
مجھ میں نہ فہم اور نہ ہی فراست ہے اس لئے میں مسائل کے حل کے لئے سوچ نہیں سکتا۔ اللہ سائیں کے خاص بندے سوچ سکتے ہیں، باقی گھاس کھاتے ہیں۔میں گھاس کھاتا ہوں اور مسائل کے حل کے بجائے صرف مسائل کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ سوچتے سوچتے حیران ہوتا ہوں۔ حیران ہونے کے بعد گھبراکر گر پڑتا ہوں۔ پھر جب اٹھنے کے قابل ہوتا ہوں، تب اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر سے پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔ میں چونکہ محب وطن ہوں اس لئے پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ورنہ میرے پاس کھانے، پینے، اوڑھنے بچھونے کے لئے اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ میں آسانی سے پاکستان کے مسائل کو نظرانداز کرسکتا تھا اور کر سکتا ہوں! لیکن نہیں، ہرگز نہیں! میں محب وطن ہوں۔ مانا کہ میرے پاس پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہے، لیکن میں پاکستان کے مسائل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے مسائل سے آنکھیں نہیں پھیر سکتا بلکہ آنکھیں نہیں چرا سکتا۔آپ یقین نہیں کریں گے۔ میں نے بارہا اللہ سائیں سے گڑگڑا کر کہا ہے:اللہ سائیں آپ نے میرے کندھوں پر مجھے ایک عدد سر سے نوازا ہے۔ میرے سر میں ایک عدد بھیجا رکھ دیا ہے۔ اس بھیجے میں اگر تھوڑی سی دانائی ڈال دیتے تو آپ کا کیا بگڑتا؟ایک رات خواب میں، میں نے ایک بزرگ کو دیکھا۔ انہوں نے کہا:آسمانوں پر تجویز تھی کہ تیری کھوپڑی میں بھیجے کے بجائے چڑیا کا گھونسلا ڈال دیا جائے۔ شکر کر کہ اس تجویز پر عمل روک دیا گیا۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں تو صرف باخبر رہ، آگاہ رہ۔ ان مسائل کا حل نکالنا تیرے بس کی بات نہیں ہے۔ اللہ سائیں نے یہ کام کچھ دانا اور سیانوں کو سونپ دیا ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے، مانا جاتا ہے کہ خواب کی تعبیر یا تو غلط نکلتی ہے یا الٹی نکلتی ہے۔ مگر میرے خواب کی تعبیر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اللہ سائیں ایسے ہی کسی کو اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے مامور نہیں کرتا۔ پاکستان کو درپیش بیشمار مسائل کا حل خدا کے نیک بندوں نے ڈھونڈ نکالا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں نے ایسا ایک حل ڈھونڈ نکالا ہے جس پر عمل کرنے سے پاکستان کو درپیش تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ وہ ایک حل تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیگا۔ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم پھر کبھی نہیں ہونگے۔ چپراسی سے لیکر اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان افسران اور حکمراں رشوت نہیں لیں گے، ہیرا پھیری کرکے خزانہ خالی نہیں کریں گے۔ اربوں روپے کے فنڈ ہڑپ نہیں کریں گے۔ عربوں سے ملنے والی امداد سے عرب ریاستوں اور دوسرے ممالک میں املاک نہیں خریدیں گے۔میں کیا بتاوں آپ کو! وہ حل پاکستان کو درپیش مسائل کا صرف حل ہی نہیں، وہ حل الہ دین کا چراغ ہے۔ کوئی آپ سے بھتہ نہیں لے گا۔ اغوا برائے تاوان نہیں ہونگے۔ ڈاکے نہیں پڑیں گے۔ سرکاری اور غیرسرکاری املاک پر قبضہ کرنے والوں کا قلع قمع ہوجائے گا۔ چھینا جھپٹی نہیں ہوگی۔ گن پوائنٹ پر کوئی آپ سے آپ کا پرس، اور موبائل فون نہیں چھینے گا۔ آپ کے بچے ہنستے کھیلتے اسکول جائیں گے اور ہنستے کھیلتے اسکول سے واپس آئیں گے۔ وہ غائب نہیں ہونگے۔ ان کے سر میں گولی لگی ہوئی نہیں ہوگی۔ یہ جو آپ آئے دن گھوسٹ، گم، اور بند اسکولوں کی کہانیاں سنتے ہیں، پھر نہیں سنیں گے۔ تب سچ مچ کے اسکول ہونگے، کھلے ہوئے ہونگے، اچھے ٹیچر ہونگے، اچھی پڑھائی ہورہی ہوگی۔ پاکستان کے تمام بچے اسکول جارہے ہوں گے۔ایسا کچھ غیرمعمولی ہے اس حل میں کہ برآمدات آسمان کو چھونے لگیں گی۔ ملک کی اقتصادی ترقی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ عوام کے ہاتھوں میں دولت کی ریل پیل ہوگی۔ بیروزگاری دور ہوجائے گی۔ غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تب پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہونے لگے گا جو امداد لیتے نہیں، بلکہ دنیا کے مفلس ممالک کو امداد دیتے ہیں۔ حتی کہ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمینٹ بنک، آئی ایم ایف کی مالی مدد کرتے ہیں۔ آپ گھبرائیں مت۔ حل پیچیدہ نہیں ہے۔ بہت آسان ہے، جیسے الہ دین کے چراغ کو رگڑنا۔ حل یوں ہے: ملک سے انگریزی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیجئے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ہے ناآسان حل؟ تو بسم اللہ کیجئے آج سے، بلکہ ابھی سے۔ درسگاہوں میں مضامین انگریزی میں پڑھانے پر پابندی لگادیجئے۔ ملک کے تمام ریلوے اسٹیشنوں اور ایئرپورٹس پر انگریزی میں لکھے ہوئے نام اور آمد و روانگی کے نوٹس مٹادیجئے۔ ملک میں چلنے والی موٹر گاڑیوں کے کاغذات اور نمبر پلیٹ ہرگز انگریزی میں لکھی ہوئی نہ ہوں۔ انگریزی میں لکھے ہوئے پاسپورٹ کا بائیکاٹ کردیں۔ دکانوں اور کاروباری مراکز اور سرکاری عمارات پر انگریزی میں لکھے ہوئے نام فوراً ہٹادیں۔ کرنسی نوٹس پر جہاں جہاں انگریزی میں عبارت نظر آئے اسے مٹادو اور ایسے نوٹ لینے اور دینے سے انکار کردو۔پاکستان میں شائع ہونے والے تمام انگریزی اخبارات، رسائل اور کتابوں پر پابندی لگا دی جائے۔ بیرون ملک سے آنے والی انگریزی کتابوں پر مکمل بندش ضروری ہے۔ انگلش فلمیں دیکھنا سنگین جرم قرار دیا جائے۔دانا اور سیانے خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں انگریزی کے رسیا لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ملک میں انگریزی لکھنے، بولنے اور پڑھنے والوں کو اس گھنائونی حرکت سے روکنے کے لئے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اگر ہوسکے تو انگریزی لکھنے، بولنے اور پڑھنے کےلئے کوئی سخت سے سخت قانون پاس کیا جائے تاکہ حالات سدھر سکیں۔