اتوار‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

شجاع خانزادہ پر حملہ اندورن خانہ حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا ,اہم انکشافات

datetime 18  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اٹک(نیوزڈیسک) پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پورا شادی خان گاو ں سکتہ کے عالم میں آگیا جبکہ خانزادہ کے ذاتی عملہ نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں کو صوبائی وزیر کی نقل و حرکت کی پوری معلومات تھیں ¾پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں کے علاقے میں مضبوط رابطے تھے۔خانزادہ برادری کی اکثریت پر مشتمل اس چھوٹے سے گاو ں میں نجی ٹی و ی سے گفتگو گفتگو کرنے والے سبھی افراد ہونے والی دہشت گردی سے سکتہ میں دکھائی دئیے۔مقامی افراد نے بتایا کہ انہیں پہلے کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا اور یہ کہ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ خود ان کے گاو ¿ں میں دہشت گرد حملہ کر سکتے ہیںتقریباً 250 مکانوں پر مشتمل شادی خان میں کوئی دکان یا کھانے پینے کا ہوٹل نہیں.ایسے میں مقامی مدد کے بغیر کسی اجنبی کیلئے علاقے میں رہنا اور اطراف کی معلومات حاصل کرنا آسان نہیں رہتا۔خانزادہ کا مکان جائے وقوعہ سے پانچ منٹ کی مسافت پر ہے۔ خانزادہ کے سیکریٹری خواجہ شکیل نے دور سے نظر آنے والے مرحوم وزیر کی رہائش گاہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ کرنل خانزادہ صبح 10:30بجے اپنے گھر سے نکلے اور جلدی جلدی 10:35 تک اپنے ڈیرے پر پہنچے ان کی علاقے کے لوگوں سے ایک ملاقات طے تھی ان کے پہنچنے پر لوگ ان سے ملنے لگے اور یہی وقت تھا اور 10:48کے درمیان دھماکا ہو گیاسیکریٹری نے تسلیم کیا کہ مختلف کالعدم تنظیموں کے سربراہ خانزادہ سے ناخوش تھے اور شادی خان سے متصل علاقوں میں بہت سے مدرسوں کے مبینہ طور پر شدت پسند گروہوں سے تعلقات ہیں۔شکیل نے بتایا کہ ہرزو میں خود کش جیکٹس تیار کرنے کی فیکٹری پکڑے جانے کے بعد خانزادہ نے علاقے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سخت بیان دئیے تھے۔مرحوم صوبائی وزیر داخلہ کے ایک اور معتمد شیخ جاوید نے بتایا کہ کرنل خانزادہ کو کئی مرتبہ دھمکیاں ملیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے ڈیرے پر آنے والوں کی سیکیورٹی بڑھانے پر اصرار نہیں کیا۔انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے خود کش بمبار باآسانی ان تک پہنچنے میں کامیاب ہواسب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں سے دو کلومیٹر دور ویسا گاو ¿ں میں بہت زیادہ مدرسے ہیں۔ایک پولیس افسر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے مقامی پولیس کی مدد سے پچھلے دو، تین مہینوں میں ان مدرسوں پر متعدد مرتبہ چھاپے مارے۔حملے کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ ہونے والے خود کش بم دھماکے میں بال بیرنگ یا کیل استعمال نہیں کیے گئے۔تاہم، تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی کیمیائی ساخت کی وجہ سے ہلاک و زخمی افراد کے جسم جھلس گئے۔رنگو پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او غلام شبیر نے بتایا کہ دھماکے سے آنے والے زخموں یا پھر ملبہ گرنے سے ہڈیاں ٹوٹنے کے علاوہ لاشیں شدید جھلسی ہوئی ملیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)


عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…