اسلام آباد (نیوزڈیسک)2013 کے عام انتخابات پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے پی ٹی آئی، اس کے کارکنوں، ووٹروں اور ہمدردوں کے اعتماد اور پارٹی کی مجموعی ساکھ نیز سب سے اہم یہ کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف چند انتہائی ہائی پروفائل ہتک عزت کے کیسز پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، جو ان کے خلاف بعض انتہائی معزز شخصیات کا مذاق اڑانے اور توہین کرنے کے الزام میں درج کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور تمام پارٹی رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک اور دیگر دو معزز جج صاحبان جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر ہمیشہ مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، لیکن ساتھ میں ہمیشہ یہ بھی کہا ہے کہ کمیشن ان کے حق میں فیصلہ کرے گامعروف تحقیقاتی وسیاسی تجزیہ کاراحمد نورانی کے مطابق کیونکہ 2013 کے الیکشنز میں ایک منظم حکمت عملی کی تحت دھاندلی کی گئی تھی جسے پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کردہ شواہد سے ثابت کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر کئی بار کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے، سابق آرمی چیف جنرل افشاق پرویز کیانی، ایم آئی کے ایک سینئر برگیڈیئر، الیکشن کمیشن کے ارکان، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی (55 پنکچرز)، سوائے خیبر پختون خوا کے باقی تمام آر اوز نے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ الیکشن میں دھاندلی کی۔ اور سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم یہ سب دیکھتے ہوئے بھی مجرمانہ طور پر خاموش رہے۔ عمران خان نے متواتر الزام لگایا کہ افتخار چوہدری نے ن لیگ کی فتح کو یقینی بنانے کے لیے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے ساتھ مل کر ایک حکمت عملی بنائی اور اس پر آر اوز کے ذریعہ عمل در آمد کیا گیا۔ اور افتخار چوہدری نے اس مقصد کے لیے پولنگ سے قبل تمام آر اوز سے خطاب کیا۔ عمران خان ایک کے بعد ایک بے بنیاد الزام لگاتے رہے اور کبھی چپ نہ ہوئے اور ہر اس شخص پر کوئی نہ کوئی الزام دھرتے رہے جس سے ان کی کبھی نہ کبھی کوئی پرخاش رہی۔ انہوں نے ڈی چوک میں اپنے منظم دھرنوں کو ملک کی بعض انتہائی معزز شخصیات اور تنظیموں کے خلاف برا بھلا کہنے اور الزام لگانے کے لیے استعمال کیا۔ اب ایک جانب تو پارٹی کارکنان، ووٹر اور ہمدرد پارٹی قیادت پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں گے، تو دوسری طرف الیکشن میں تیسرے نمبر پر آنے والی پی ٹی آئی اپنی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی۔ کیونکہ آزاد تجزیہ کاروں کی اکثریت قوم کو یہی بتارہی تھی کہ الیکشن میں دھاندلی ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن پی ٹی آئی رہنما مسلسل نوجوان کارکنوں سے یہی کہتے رہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ الیکشن میں جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس رمدے اور نجم سیٹھی نے دھاندلی کی۔ درحقیقت ان میں سے کسی کا بھی پولنگ، ووٹ کاسٹنگ، گنتی، نتائج اکٹھا کرنے سے براہ راست تعلق نہ تھا۔ لیکن پی ٹی آئی رہنما مسلسل ان کی توہین کرتے رہے جس سے نہ صرف ان شخصیات کو دکھ ہوا بلکہ ان کے اہل خانہ اور چاہنے والوں کو بھی دکھ پہنچا۔ عمران خان نے جیو اور جنگ گروپ کے خلاف بھی الزامات لگائے لیکن جیو جنگ گروپ نے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے تمام مقدمات واپس لے لیے۔ تاہم ملک کی مختلف عدالتوں میں ان معزز شخصیات کی جانب سے عمران خان کے خلاف دائر کردہ ہتک عزت کیسز کی سماعتیں چل رہی ہیں۔ قانون کے تحت یہ مقدمات آزادانہ طور پر چلتے رہیں گے اور انکوائری کمیشن کی تحقیقات کا ان مقدمات پر کوئی براہ راست اثر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ انکوائری کمیشن کی تحقیقات چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر دو سینئر ججوں نے کی ہیں، اور دونوں جوانب سے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں نہ صرف متعدد ثبوت پیش کیے گئے بلکہ درجنوں گواہان بھی عدالت میں پیش ہوئے جن سے کمیشن نے تفتیش کی، لہذا کمیشن کی تحقیقات کے نتائج کا ہتک عزت کے تمام کیسز پر گہرا اثر پڑے گا۔