اسلام آباد(نیوزڈیسک) سیلاب کی موجودہ صورتحال میں سندھ اور پنجاب کی حکمراں جماعتوں سمیت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اچھی یا بری کارکردگی کا اثردونوں صوبوں میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر پڑے گا۔معروف صحافی طارق بٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں 20ستمبر کو بلدیاتی انتخابات ہونگے، اور اس وقت سیلاب متاثرین کی جانب سے صوبائی حکمراں جماعتوں کی متاثرین کی بحالی کیلئے کیے جانیوالے اقدامات کی یادیں انکے ذہنوں میں اس وقت تک تازہ رہینگے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے سیلاب متاثرین کو بچانےمیں سستی یا نیم دلانہ سعی کے مظاہرے کے بلدیاتی انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ پنجاب کے ایک سینئر افسر نے بتایاکہ ہم متاثرین کیلئے جلدہی امدادی پیکج کی فراہمی پر غور کررہے ہیں تاکہ انہیں امداد بلاتاخیر مل سکے ۔ ہمارے ریکارڈ سے واضح ہےکہ ہم نےناگہانی آفات میں ہمیشہ بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہےاور اس وقت بھی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام سرکاری مشینری کا استعمال کیا جارہا ہے ، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیلاب سے ہونیوالی تباہ کاریوں کے پیش نظر وفاقی حکومت سندھ اور پنجاب کیلئے مالی امداد کا اعلان کریگی۔ بلدیاتی انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں سندھ اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کامظاہرہ کرینگی ۔ تحریک انصاف نے حسب معمول بلدیاتی انتخابات کے حوالےسے پنجاب پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور اس ضمن میں وہ کسی بدنظمی سے بچنے کیلئے احتیاط کے ساتھ متوقع امیدواروں کا انتخاب کررہی ہے۔ دوسری جانب سندھ میں ٹارگٹڈ آپریشن کے باعث انتہائی دباؤ کا شکار ایم کیوایم کیلئے کراچی اور حیدرآباد میں اپنی انتخابی بالادستی برقرار رکھنا بڑا امتحان ہے۔ آئندہ دنوں میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر تحریک انصاف سیلاب سے نمٹنے کے حوالےسے پنجاب حکومت کی نااہلی کو اپنا مرکز نگاہ بنائے گی، اور اس سلسلے میں منگل کے رو ز عمران خان نے پہلا تنقیدی حملہ بھی کردیا۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی توجہ اندرون سندھ کے اضلاع پر اپنی گرفت برقرار رکھنے پر مرکوز رہے گی، لیکن اس جماعت کو پنجاب میں بھی اچھی کارکردگی کے مظاہرے کے حوالےسے مشکلات کا سامنا ہے۔ پنجاب میں کئی رہنماؤں کے تحریک انصاف میں چلے جانےسے پیپلزپارٹی پر برا اثر پڑا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے جتنے بھی رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ان کے اس اقدام کا مقصد آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے حصے کا حصول تھا اور تحریک انصاف کا انتخاب بھی اسی لیےکیا گیا کہ کیونکہ ان کے متعلقہ علاقوں میں پی ٹی آئی کو عوامی حمایت حاصل تھی ۔ انہوں نے پی پی پی سے اس لیے راستے جدا کیے کیونکہ وہ انتخاب کیلئے پارٹی پر انحصار کو بے وقعت سمجھتےتھ