کراچی(نیوزڈیسک)سندھ اسمبلی میں پیر کو رواںمالی سال کے بجٹ کی تیسری سہ ماہی رپورٹ اور آئندہ مالی سال کے لےے بجٹ تجاویز پر بحث زبردست شور شرابے میں جاری رہی ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک دوسرے پر کرپشن کے خوف ناک الزامات لگائے گئے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے اپنی تقریر کے دوران سندھ حکومت کو انتہائی کرپٹ قرار دیا اور وزیر تعلیم نثار احمد کھوڑو پر بھی یہ الزام لگایا کہ وہ رقص و سرور کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس محفل کی ویڈیو ان (نصرت سحر عباسی ) کے موبائل فون میں ہے ۔ جب اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین کے رکن سید مراد علی شاہ نے وقت ختم ہونے پر نصرت سحر عباسی کا مائیک بند کر ا دیا تو مسلم لیگ (فنکشنل) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ایوان میں شور شرابہ کیا ۔ چیئرمین نے نصرت سحر عباسی کو مزید وقت دیا تو نصرت سحر عباسی نے سندھ حکومت پر مزید الزامات عائد کےے ۔ جب صوبائی وزیر اینٹی کرپشن ، جیل خانہ جات اور معدنیات اور معدنی ترقی منظور حسین وسان تقریر کرنے کے لےے کھڑے ہوئے تو نصرت سحر عباسی ، مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن سورٹھ تھیبو اور دیگر اپوزیشن ارکان بھی مسلسل بولتے رہے ۔ انہوں نے منظور وسان کو تقریر نہ کرنے دی ۔ ایک مرحلے پر ایم کیو ایم کے محمد حسین نے چیئرمین سے کہا کہ ایوان کا وقت ضائع ہو رہا ہے ۔ چیئرمین صورت حال کو کنٹرول کریں ۔ منظور وسان تھوڑی بات کرتے تو اپوزیشن والے ارکان شور شرابہ شروع کر دیتے ۔ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ شور شرابے میںہمیں منظور وسان کی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ لہذا نہیں دوبارہ بات کرنے کی اجازت دی جائے ۔ منظور وسان نے شور شرابے میں مسلم لیگ (فنکشنل) کے لوگوں کی کرپشن کی کئی داستانیں سنا ڈالیں ۔ شور شرابے میں ہی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح تک ملتوی کر دیا گیا ۔ تفصیلات کے مطابق نصرت سحر عباسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سندھ حکومت انتہائی کرپٹ ہے ۔ آڈیٹر جنرل سندھ کہہ رہا ہے کہ اس سال 22 ارب روپے کی کرپشن ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیربلدیات و اطلاعات شرجیل میمن نے اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ کراچی واٹر بورڈ اینڈ سیوریج بورڈ میں دہشت گرد موجود ہیں ۔ اسمبلی کو ان دہت گردوں کی فہرست مہیا کی جائے ۔ کیا بورڈ کی خراب کارکردگی کا سبب یہی دہشت گرد ہیں ؟ حکومت نے ان کے خلاف کیا کارروائی کی ؟ حکومت سندھ صرف اور صرف کرپشن کر رہی ہے ۔ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی لےے اپنی زندگی قربان کی تھی کہ ان کی پارٹی کے لوگ کرپشن کریں ۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر تعلیم نے 30 ہزار جعلی بھرتیاں کیں ، موجودہ وزیر تعلیم رقص و سرور کی محفلیں سجاتے ہیں ۔ نصرت سحر عباسی کے خطاب کا 5 منٹ کا وقت ختم ہوا تو چیئرمین نے ان کا مائیک بند کرا دیا ، جس پر مسلم لیگ (فنکشنل) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے زبردست احتجاج کیا ۔ پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان بھی کھڑی ہو گئیں ، جس سے ایوان میں زبردست شور شرابہ ہوا ۔ چیئرمین نے بالآخر انہیں مزید 7 منٹ بولنے کی اجازت دی ۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ بلدیاتی ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں ۔ کراچی سے باہر سندھ کے دیگر شہروں کی حالت بہت خراب ہے ۔ نصرت سحر عباسی نے موبائل فون ایوان میں لہراتے ہوئے کہا کہ میرے اس موبائل میں ویڈیو موجود ہے ، جس مین دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیر تعلیم نثار احمد کھوڑو کس طرح کی محفل میں بیٹھے ہیں ۔ ان کا ضمیر مرچکا ہے ۔ ان کی یہ اخلاقیات ہے تو وہ تعلیم میں کیا بہتری لائیں گے ۔ انہیں سندھ کے عوام ، ماو ں ، بہنوں سے معافی مانگنی چاہئے ۔ کیا بے نظیر بھٹو انہیں یہی تعلیم دے گئی تھیں ۔ منظور حسین وسان نے مسلم لیگ ( فنکشنل) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے شور شرابے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہاکہ جنرل ضیاءاور پرویز مشرف کے دور میں بھی مسلم لیگ (فنکشنل) 16 سال اقتدار میں رہی ۔ اس کی عجب کرپشن کی بے شمار غضب کہانیاں ہیں ۔ انہوں نے 36 ہزار ایکڑ سرکاری اراضی جعلی کھاتوں میں الاٹ کرائی ۔ محکمہ ریونیو میں یہ لوگ جعلی کھاتے بنانے کے ماہر ہیں ۔ ان کے موجودہ رکن سندھ اسمبلی نے 90 کروڑ کا سرکاری بنگلہ 10 لاکھ روپے میں الاٹ کرایا ۔ اسے نیب سے سزا بھی ہو چکی ہے اور یہ انکوائری اب میرے پاس ہے ۔ 2002ءسے 2007ءتک نارا کینال کے آر ڈی 232 سے آرڈی 314 تک 9 ارب روپے کا کام کا ٹھیکہ تھا لیکن یہاں کوئی بھی کام نہیں ہوا ۔ ان لوگوں نے دریائے سندھ کا رخ موڑ کر 2 لاکھ ایکڑ زمین نکالی اور اس پر قبضہ کر لیا ۔ محکمہ معدنیات اور معدنی ترقی میں پیر صدرالدین شاہ کا ایک فرنٹ مین آرائیں ہے ۔ اس نے 2008ءاور 2013ءکے درمیان تین لاکھ ایکڑ اراضی لیز کرائی ۔ ساون گیس فیلڈ میں ایک کروڑ روپیہ ماہانہ بھتہ لیا جاتا ہے اور قادر پور گیس فیلڈ سے ماہانہ ڈھائی کروڑ روپے بھتہ لیا جاتا ہے ۔ یہ تحقیقات ہونی چاہئے کہ کہیں یہ بھتہ کراچی میں دہشت گردی کے لےے تو استعمال نہیں ہو تا ہے ۔ ان لوگوں کی کرپشن کی بے شمار داستانیں ہیں ۔ بحث میں دیگر ارکان نے بھی حصہ لیا ۔ ایم کیو ایم کے انجینئر صابر قائم خانی نے کہا کہ رواں مالی سال کا 73 فیصد بجٹ خرچ ہو گیا ہے ۔ 5 کھرب سے زیادہ کے اخراجات ہو چکے ہیں لیکن سندھ کے عوام کی حالت ذرہ بھی تبدیل نہیں ہوئی ۔ پورے صوبے میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ حیدر آباد کی اہم ترقیاتی اسکیموں کے لےے فنڈز جاری نہیں کےے گئے ۔ فنڈز کی تقسیم منصفانہ بنیاد پر ہونی چاہئے ۔ بلدیاتی اداروں کے حصے میں اضافہ کیا جائے ۔ حیدر آباد یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا جائے اور اس کے لےے فنڈز مختص کےے جائیں ۔ پیپلز پارٹی کے خورشید احمد جونیجو نے کہا کہ حکومت سندھ ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے ، جو اس بات کی نگرانی کرے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لےے کتنے فنڈز مختص کےے گئے تھے ، ان میں سے کتنے فنڈز ریلیزہوئے اور کتنے خرچ ہوئے ۔مسلم لیگ (ن) کی سورٹھ تھیبو نے کہاکہ سندھ حکومت مسلسل یہ شور کرتی ہے کہ وفاق کی طرف سے اسے اپنے حصے کی رقم نہیں ملتی لیکن حکومت سندھ کی اپنی کارکردگی بہت خراب ہے ۔ وہ صوبائی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف حاصل نہیں کر سکی ہے اور ترقیاتی اسکیموں پر عمل درآمد بھی نہیں کرا سکی ہے ۔ صوبے میں امن وامان کی صورت حال بہت خراب ہے ۔ غرض ہر شعبے میں سندھ حکومت ناکام ہے ۔ ایم کیو ایم کی ناہید بیگم نے کہا کہ ” خصوصی ترغیبات “ کی مد میں 5 ارب روپے مختص کےے گئے لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ ترقیاتی اسکیمیں کہاں ہیں اور کس اسکیم کے لےے کتنی رقم مختص کی گئی ہیں ۔ سکھر میں ویمن یونیورسٹی کے قیام کے لےے فنڈز مختص کےے جائیں ۔ پیپلز پارٹی کے سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ضلع سکھر کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے اور ترقیاتی اسکیموں کے لےے فنڈز بروقت جاری کےے جائیں ۔ ایم کیوایم کے محمد دلاور قریشی نے کہا کہ حکومت سندھ لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی میں بھی ناکام ہے ۔ حکومت اپنے ٹیکسوں کی وصولی میں بھی ناکام ہے ۔ صوبے بھر میں 7461 اسکلوز کی عمارتیں نہیں ہیں ۔ 6039 اسکولز کی عمارتیں مخدوش اور خطرناک ہیں، 23241 اسکولز میں بجلی نہیںہے ۔ 23047 اسکلوز میں پینے کا پانی نہیں ہے ۔ 20212 اسکولز میں ٹوائلٹ کی سہولت نہیں ہے جبکہ 61938 اسکولز کی چار دیواری نہیں ہے ۔ اس سے تعلیم کا حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے ڈاکٹر محمد رفیق بانبھن نے کہا کہ خطیر ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے لیکن کسی کو یہ پتہ نہیں یہ رقوم کہاں گئیں۔ کہیںبھی ترقی نظر نہیں آتی ۔ پیپلزپارٹی کی ارم خالد نے کہا کہ سندھ میں امن و امان پرہونے والے اخراجات میں وفاقنے اپنے حصے کی رقم ادا نہیں کی ۔ ترقیاتی اسکیموں کے لےے بھی وفاقی حکومت نے اپنے حصے کے فنڈز جاری نہیں کےے اور این ایف سی ایوارڈ کے مطابق بھی سندھ کو اس کے حصے کی رقم بروقت نہیں دی جا رہی ۔ سندھ سکیورٹی اخراجات کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ۔ وفاق کو اس حوالے سے معاونت کرنی چاہئے ۔ ایم کیو ایم کے محمد راشد خلجی نے کہاکہ حیدر آبادمیں پانی کی شدید قلت ہے ۔ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے ۔ ترقیاتی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے تتمام سیاسی جماعتوں کے ارکان سندھ اسمبلی کی تجاویز حاصل کی جائیں ۔ ایم کیو ایم کے پونجو مل بھیل نے کہا کہ تھر میں آر او پلانٹس کی تنصیب اچھا کام ہے لیکن منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے یہ پلانٹس چل نہیں رہے ۔ کہیں بجلی کا مسئلہ ہے اور کہیں کوئی دوسرا مسئلہ درپیش ہے ۔ 80 فیصد آر او پلانٹ ناکارہ پڑے ہیں ۔ ان سے تھر کے لوگوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے اقلیتی ارکان کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے اور انہیں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کےے گئے ۔ اقلیتوں کے لےے قائم کردہ کمیٹی میں ہمیں نمائندہ نہیں دی گئی ۔ پیپلز پارٹی کی نصرت سلطانہ نے کہاکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے میرپورخاص کے اسپتال میں کینسر وارڈ بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ اس وارڈ کے لےے فنڈز جاری کےے جائیں ۔ میرپورخاص میں ایک اور گرلز کالج قائم کیا جائے ۔ ایم کیو ایم کے جمال احمد نے کہا کہ کراچی میں سڑکوں کی حالت خراب ہے ۔ اس وجہ سے ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی ہے اور اسٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی شہرمیں لوگوں کو میسر نہیں ہے ۔ کراچی کے مسائل پر فوری توجہ دی جائے ۔ سندھ اسمبلی نے پیر کو رواں مالی سال کے 100 دن بھی مکمل کر لےے