اسلام آباد(نیوز ڈیسک) باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دو جمہوری ادوار کے دوران برسر اقتدار رہنے والے ایسے جمہوری سیاستدانوں کی فہرستوں کی تیاری شروع ہو گئی ہے ،جن کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ اربوں کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس میں کئی مرتبہ نشاندہی کی گئی ہے کہ کرپشن نے پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کو خاندانی آمریت اور غیر جمہوری ڈھانچوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان اداروںنے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ترجیحی بنیاد پر احتساب کا ایسا موثر نظام وضع کرے جس سے عوام کو یہ اختیار مل سکے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کا احتساب کر سکیں تاکہ ملکی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹا جاسکے۔جس کی وجہ سے شہریوں میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے اور حکومت پر انکے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔اسلام آباد میں باخبر ذرائع کے مطابق موجودہ دور حکومت میں اگرچہ کرپشن کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے مگر وہ ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی کہ جسے تسلی بخش قرار دیا جا سکے ۔ جس کے باعث یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ طاقت کے اہم”مراکز“ میں ان سیاستدانوں کی لسٹیں بننا شروع ہو گئیں ہیں جن کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت ملک کے اہم اداروں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے اس فہرست میں گزشتہ ادوار میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی پیپلز پارٹی،اے این پی،ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتیں اور ان کے اہم رہنما بھی شامل ہیں جبکہ موجودہ حکمران سیاسی جماعت کے کئی مرکزی رہنماﺅں کے نام بھی اس فہرست میں لکھے گئے ہیں۔موجودہ حکومت کی شخصیات پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کے دور میں شروع ہونے والے میگا پرا جیکٹ میں کرپشن بھی ”میگا“ سائز کی ہوئی ہے۔لاہور،اسلام آباد میں میٹرو،چین کے ساتھ توانائی کے منصوبوں اور قطر کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کے منصوبوں پر بالخصوص سب سے زیادہ تنقید کی جارہی ہے کہ ان میں شفافیت نہیں ہے اور اس کے پیچھے اسحق ڈار اور سیف الرحمن کا ہاتھ ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ دور میں شروع ہونے والے منصوبے تاریخ میں سب سے زیادہ شفاف ترین ہیں۔دوسری طرف پیپلز پارٹی جس پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگ چکے ہیں،اس کے بارے میںذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی رہنماﺅ ں کی سب سے زیادہ تعداد اس فہرست میں نظر آئے گی۔جس میں آصف زرداری ،شرجیل میمن ،پیر مظہر الحق ،اویس مظفر ٹپی اور آغا سراج درانی شامل ہیں۔حال ہی میں ماڈل ایان علی کے منی لانڈرنگ کیس میں بھی پی پی کے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک اور ان کے بھائی خالد ملک کا نام منظر عام پر آیا ہے،اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کیس میں ان کی گرفتاری بھی ہو سکتی ہے۔دوسری طرف ایم کیو ایم جو نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن کے بعد شدید دباﺅ کا شکار ہے ،اس کے بھی اہم رہنماﺅں کے نام اس فہرست کا حصہ بن رہے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے متعدد رہنماﺅں نے گزشتہ دور حکومت میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے ۔خود متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین بھی چند ماہ قبل اپنے خطابات میں پارٹی عہدیداروں کو کرپشن کے حوالے سے تنبہہ کر چکے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے اندرونی ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ متحدہ کے کرپشن میں ملوث ان رہنماﺅںنے اس ”کمائی “ سے امریکہ میں ہیوسٹن،لاس اینجلس،واشنگٹن ،میری لینڈ اور ورجینیا جیسی ریاستوں کے پر تعیش علاقوں میں مہنگی ترین جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ان مہنگی جائیداد کی خریداری میں ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری کا نام بھی لیا جا رہا ہے ،جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نائن زیرو پر رینجرز آپریشن سے قبل بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے،اب امریکہ پہنچ چکے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شائد اب وہ کبھی بھی پاکستان میں نظر نہ آئیں کیونکہ امریکہ میں موجود بیش قیمت جائیداد کی دیکھ بھال میں بھی ان کا کافی وقت صرف ہو گا۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بر سر اقتدار رہنے والی جماعت اے این پی کے رہنماﺅں کی بھی لندن اور امارات میں اربوں روپے کی ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے ثبوت بھی ان تیار کی گئی فہرستوں میں شامل ہو چکے ہیں۔فہرست تیار کرنے والوں نے لندن ،امریکہ اور دبئی جیسے شہروں میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی مہنگی ترین جائیدادوں کے بارے میں اعداد وشما ر اور ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں۔اس حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیار کی جانے والی اس فہرست میں گزشتہ آمریت کے دور میں برسر اقتدار رہنے والے جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کی اہم ترین شخصیتوں کے ناموں کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔جن کے بارے میں بھی عام تاثر ہے کہ انہوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں ان اربوں کھربوں کی کرپشن کی تھی اور انکے بھی امریکہ ،لندن اور دبئی جیسے شہروں میں مہنگے ترین اپارٹمنٹس ،فلیٹس اور جائیدادیں موجود ہیں اور ان کے بچے بھی ان شہروں میں ایسے اپارٹمنٹس میں مقیم ہیں جن کے ماہانہ کرائے 8،9ہزار ڈالر سے کم نہیں ہیں۔ذرائع کے مطابق اس بار آنے والی ”تبدیلی“ بہت زیادہ سخت اور ”بے رحم “ ہو سکتی ہے ،جس کی لپیٹ میں کرپشن میں ملوث بڑے جمہوری سیاستدان آئیں گے۔