اسلام آباد (نیوز ڈیسک) کیا عمران خان کی حکومت نے ایک پراپرٹی ٹائیکون اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے درمیان 190 ملین پاؤنڈز کی وطن واپسی کے معاملے میں کسی قسم کی معاونت فراہم کی؟اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر کے دستخط شدہ “معاہدہ رازداری” (ڈِیڈ آف کانفیڈنشلٹی) کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں براہِ راست شامل تھی۔اس معاہدے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ کا ذکر موجود ہے اور اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ معاہدے کی تفصیلات اس وقت تک خفیہ رکھی جائیں گی جب تک قانونی طور پر ان کا افشا ضروری نہ ہو۔
یہ معاہدہ اور اس کی شقیں حکومت کی پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ شمولیت پر سنگین سوالات اٹھاتی ہیں۔ اس وقت، این سی اے اور ٹائیکون کے درمیان ہونے والے “فریم ورک ایگریمنٹ” کے ساتھ ہی رازداری کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس میں ضبط شدہ رقم کی وطن واپسی اور غیر منقولہ جائیداد کی فروخت کے معاملات شامل تھے۔حکومت پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ یہ معاہدہ خفیہ رہے گا۔ شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے میں حکومت یا انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، لیکن دستیاب معاہدہ رازداری کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت پوری طرح سے اس معاملے میں شامل تھی، حالانکہ حکومت مسلسل انکار کرتی رہی۔”ڈِیڈ آف کانفیڈنشلٹی” کی ایک نقل دی نیوز کے پاس موجود ہے۔ معاہدے کی شق 2.1.1 پر مرزا شہزاد اکبر کے دستخط ہیں، جو یہ واضح کرتی ہے کہ ڈیڈ اور فریم ورک ایگریمنٹ کی شرائط خفیہ رہیں گی۔
شق 2.4 میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی فریق کی پیشگی اجازت کے بغیر ان معاہدوں کی تفصیلات ظاہر نہیں کرے گی۔یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اثاثہ ریکوری یونٹ نہ صرف رازداری کے معاہدے کا حصہ تھا بلکہ فریم ورک معاہدے کی تفصیلات سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ حالانکہ شہزاد اکبر نے ہمیشہ دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ پراپرٹی ٹائیکون اور این سی اے کے درمیان ہوا تھا اور حکومت نے کوئی مداخلت نہیں کی۔شق نمبر 2.6 کے تحت کسی بھی فریق کو معاہدے کی درست معلومات فراہم کرنے کی اجازت حکومت پاکستان دے سکتی تھی، جبکہ شق 2.3.4 میں عدالت یا دیگر ریگولیٹری باڈیز کے احکامات پر معلومات کے افشا کی گنجائش دی گئی تھی۔اس معاہدے کے علاوہ، عمران حکومت نے پراپرٹی ٹائیکون کو متعدد بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔
مجموعی طور پر ٹائیکون کو 20 مرتبہ سفر کی اجازت ملی، اور عدم اعتماد کے ووٹ سے کچھ دن قبل 30 مارچ 2022 کو، انہیں 8 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی منظوری دی گئی۔شہزاد اکبر کے ٹائیکون کے ساتھ برطانیہ کے دورے بھی اس مدد کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگست 2018 سے دسمبر 2019 کے دوران، جب این سی اے ٹائیکون کے مالی معاملات کی تحقیقات کر رہی تھی، شہزاد اکبر نے 10 بار برطانیہ کا دورہ کیا، اور کئی بار وہ اور ٹائیکون ایک ساتھ وہاں موجود تھے۔یہ ساری صورتحال عمران حکومت کی پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ معاونت کے شواہد پیش کرتی ہے۔ دی نیوز نے رانا ثناء اللہ سے رابطہ کیا، جو پی ڈی ایم حکومت میں وزیر داخلہ تھے، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا شہباز حکومت نے ٹائیکون کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا تھا۔ رانا ثناء اللہ نے جواب دیا کہ انہیں اس کی تصدیق کی ضرورت ہے۔دی نیوز نے شہزاد اکبر کو سوالنامہ بھیجا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ وہ فیملی کے ساتھ مصروف ہیں اور جلد جواب دینے کی کوشش کریں گے۔