راولپنڈی(این این آئی)سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں، جس پر انہیں تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، انکوائری پاک فوج نے فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتا لگانے کیلئے کی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 نومبر 2023 کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی جانب سے جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کیلئے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ‘ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم’ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی ۔درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کیلئے ایک نجی چینل آپ ٹی وی نیٹ ورک کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔عدالت نے نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ کے بینچ نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون کی جانب سے دائر کی گئی شکایت پر سماعت کے بعد معز احمد خان کو کلیئر قرار دیا تھا۔
زاہدہ اسلم نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ معز احمد خان ماہانہ تنخواہ کے عوض ان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے تھے، تاہم مبینہ طور پر دھوکا دہی سے انہوں نے ان کی جائیدادیں اپنے نام منتقل کرلیں اور جب انہوں نے زمین واپس لینے کی کوشش کی تو معز احمد خان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔جسٹس (ر) ثاقب نثار کو جمع کرائی گئی ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق زاہدہ جاوید اسلم کی زمین اصل دستاویزات کی بجائے فوٹو کاپی کی بنیاد پر معز خان کے نام منتقل کی گئی۔ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتائج میں بتایا گیا کہ شکایت کنندہ زاہدہ جاوید اسلم اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکیں لیکن ان کا یہ دعویٰ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں معز احمد خان نے ڈرایا دھمکایا کیونکہ معز احمد خان نے زاہدہ جاوید اسلم کے اربوں روپے کے حصے کی مد میں انہیں کچھ بھی ادا نہیں کیا۔ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیربحث جائیداد سے متعلق ڈیل نہ تو عام حالات میں عمل پذیر ہوئی اور نہ ہی رجسٹرار آفس اسلام آباد کی جانب سے دستاویزات کی فوٹو کاپیوں کی بنیاد پر ملکیت کی منتقلی کا عمل شفاف طریقے سے سرانجام دیا گیا۔