واشنگٹن(این این آئی)امریکا کے جنوبی ایشیا کیلئے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو نے کہا ہے کہ سائفر کے ذریعے امریکی سازش کا بانی پی ٹی آئی عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ ہے،بانی پی ٹی آئی کو نکالنے میں امریکا کا کوئی کردار نہیں، انتخابات میں بے ضابطگیوں کی شکایات دیکھنا الیکشن کمیشن پاکستان کا کام ہے،31سال پہلے پشاورتعیناتی کے دوران پاکستان کے انتخابات کوقریب سے دیکھا،انتخابی دھاندلیوں،تشدداوردھمکیوں کے باوجودووٹرزسامنے آئے،پاکستان کے عوام کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو جمہوری عمل سے منتخب کریں۔جنوبی ایشیا کیلئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لوکا امریکی ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی میں بیان کو چیئرمین کمیٹی نے تسلی بخش قرار دے دیا۔ڈونلڈ لو نے امریکی ایوان نمائندگی کی امور خارجہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں بیان ریکارڈ کروایا۔
انہوں نے کہاکہ سائفر کو امریکی سازش کہنے کا عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ ہے، یہ الزام اور سازشی نظریہ جھوٹ اور بے بنیاد ہے،سائفر سے متعلق میڈیا رپورٹ اور الزامات غلط ہیں۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ امریکا یا میں نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اقدام کیا،میٹنگ میں شامل سفیر نے پاکستان کی حکومت کو بتایاکہ کوئی سازش نہیں ہوئی، پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے عوام کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو جمہوری عمل سے منتخب کریں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی میں انتخابات کے بعد پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور پاک امریکا تعلقات پر سماعت کے دوران ڈونلڈ لو نے کہاکہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کی شکایات دیکھنا الیکشن کمیشن پاکستان کا کام ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پاکستان شفاف طریقے سے بے ضابطگیوں کے ذمہ داروں کا احتساب کرے،الیکشن کمیشن نے اعلیٰ سطح کمیٹی بنائی ہے جس میں ہزاروں پٹیشن جمع ہوچکی ہیں،ہم الیکشن میں بے ضابطگیوں سے متعلق تحقیقات کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ڈونلڈ لو نے کہاکہ ہم حکومت اور الیکشن کمیشن کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ شفاف عمل کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ31سال پہلے پشاورتعیناتی کے دوران پاکستان کے انتخابات کوقریب سے دیکھا،انتخابی دھاندلیوں،تشدداوردھمکیوں کے باوجودووٹرزسامنے آئے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری جنوبی ایشیا نے کہا کہ 3دہائیاں قبل نوازشریف اوربینظیربھٹو کے درمیان مقابلہ تھا۔انہوںنے کہاکہ انتخابات کے اگلے دن محکمہ خارجہ نے ایک واضح بیان جاری کیا،بیان کے مطابق اظہاررائے،انجمن،پرامن اجتماع کی آزادیوں پرغیرضروری پابندیوں کونوٹ کیا گیا۔ڈونلڈلو نے کہا کہ بیان میں انتخابی تشدد،انسانی حقوق اوربنیادی آزادی پر پابندیوں کی مذمت کی گئی،میڈیا ورکرزپرحملوں،انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز تک رسائی پرپابندیاں کی مذمت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات کے بار ے میں تشویش کا اظہار کیاگیا،مداخلت یا دھوکا دہی کے دعووں کی مکمل چھان بین ہونی چاہئے۔جنوبی ایشیا کے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری نے کہاکہ الیکشن سے پہلے انتخابی بدسلوکی اور تشدد کے بارے میں ہم فکرمندتھے،دہشت گردگروہوں کی طرف سے پولیس،سیاست دانوں اورسیاسی اجتماعات پرحملے ہوئے۔
انہوںنے مزیدکہاکہ پارٹی حامیوں نے خواتین سمیت صحافیوں کوہراساں کیااوربدسلوکی کا نشانہ بنایا،متعدد سیاسی رہنما مخصوص امیدواروں کو رجسٹر کرنے میں ناکام رہے۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ انتخابات کے دن الیکشن کی نگرانی کرنیوالی تنظیم نے بیان جاری کیا،تنظیم نے کہاانہیں ملک بھرکے نصف سے زیادہ حلقوں میں ووٹ ٹیبلولیشن کامشاہدہ کرنے سے روک دیاگیاتھا۔انہوںنے کہاکہ ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجودالیکشن کے دن حکام نے موبائل ڈیٹا سروسزکوبندکردیا،ان انتخابات میں مثبت عناصر بھی تھے۔جنوبی ایشیا کے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری نے مزیدکہاکہ تشددکی دھمکیوں کے باوجود60 ملین سے زیادہ پاکستانیوں نے ووٹ ڈالا،ووٹ ڈالنے والوں میں 21ملین سے زیادہ خواتین بھی شامل ہیں۔
انہوںنے مزیدکہاکہ ووٹرزنے2018کے مقابلے میں50فیصد زیادہ خواتین کو پارلیمنٹ کیلئے منتخب کیا،مذہبی اوراقلیتی گروپوں کے اراکین اورنوجوانوں نے پارلیمنٹ کے انتخابات لڑے۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں،3مختلف سیاسی جماعتیں اب پاکستان کے چاروں صوبوں کی قیادت کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ5ہزار سے زیادہ آزاد مبصر میدان میںتھے،انتخابات کا انعقاد بڑی حدتک مسابقتی اورمنظم تھا،نتائج کی تالیف میں کچھ بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا۔