اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جنرل عاصم منیر کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو بشریٰ بی بی اور فرح خان کی سرگرمیوں سے آگاہ کیے جانے سے چند ماہ قبل، جنرل باجوہ نے اُنہیں ایک دستاویز پیش کی تھی جس میں عثمان بزدار اور احسن گجر کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے معلومات موجود تھی۔
جنگ اخبار میں عمر چیمہ کی خبر کے مطابق عمران نے اپنے ملزم وزیراعلیٰ اور فرح خان کے شوہر کیخلاف کارروائی کی بجائے خاموش رہنا پسند کیا۔ اتفاقاً، سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے شیئر کیے جانے والے شواہد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وصول کیے تھے جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ فیض نے یہ سوچا کہ وزیراعظم عمران خان کو مطلع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ایسی سرگرمیوں پر دھیان نہیں دیں گے کیونکہ یہ معاملات اُن کے قریبی لوگوں سے جڑے ہیں۔ دوسری جانب اس صورتحال سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ باجوہ یہ معلومات ان کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے پر مصر تھے کیونکہ ان کی شروع سے رائے تھی کہ بزدار وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے اچھا انتخاب نہیں۔ ذریعے نے مزید بتایا کہ جب باجوہ نے یہ معلومات شیئر کیں تو ان کا کہنا تھا کہ بزدار نہ صرف نا اہل شخص ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ اور فرح خان کے شوہر احسن گجر کے ساتھ مل کر کرپشن کر رہے ہیں۔ احسن گجر بشریٰ بی بی کے قریبی ساتھی ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ باجوہ نے وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ یہ مت پوچھیں کہ یہ سارا پیسہ آخر گیا کہاں۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف نے دونوں خواتین کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پلیز مجھ سے مت پوچھیں کیونکہ آپ کو شرمندگی ہوگی۔‘‘ عمران نے بھی مزید کچھ نہ پوچھا۔ جب ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے جنرل عاصم نے یہ معلومات وزیراعظم عمران خان کے ساتھ شیئر کیں تو پہلے تو انہوں نے جنرل باجوہ سے مشاورت کی۔ پہلے تو یہ فیصلہ ہوا کہ وہ دونوں مل کر عمران خان سے ملاقات کریں گے تاکہ انہیں شواہد سے آگاہ کیا جا سکے اور درخواست کی جائے کہ اپنی فیملی کو پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ایک بڑی شخصیت سے دور رکھیں۔
اسی دوران جنرل باجوہ ایک دورے پر چلے گئے اور اس کے بعد جنرل عاصم نے اکیلے ہی یہ معلومات عمران خان کے ساتھ شیئر کیں۔ اس پر عمران خان سیخ پا ہوگئے اور جنرل باجوہ کی واپسی پر انہیں شکایت کی۔ انہوں نے طے کر لیا تھا کہ جنرل عاصم کو بہر قیمت عہدے سے ہٹا دیں گے اور تقرری کے 8؍ ماہ بعد جنرل عاصم کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
صورتحال یہ تھی کہ عہدے سے ہٹانے کیلئے انہوں نے تعطیلاتی دن ختم ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا اور اتوار کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اپنے معاملات درست کرنے کی بجائے عمران خان کا اصرار تھا کہ ان کے سیاسی مخالفین کو فوج گرفتار کرنے میں کردار ادا کرے اور وہ اکثر و بیشتر جنرل پرویز مشرف کا حوالہ دیتے تھے۔