اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے گزشتہ روز پوچھے گئے سوالات کا جواب دے دیا۔ٹوئٹر پر عمران خان کا بیان ری ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیراعظم نے لکھا کہ یوٹرنز اور اداروں پر مذموم حملے آپ کی سیاست کا تعارف ہے،
آپ کا رویہ عدلیہ کو اپنی خواہشات کے حق میں جھکانا اور ’قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا‘ جیسا ہے۔نجی ٹی وی جیو کے مطابق وزیراعظم نے لکھا کہ میں آپ سے یہ جوابی سوال پوچھتا ہوں، اقتدار سے محروم ہونے کے بعدباربارپاک آرمی کو بطور ادارہ بدنام کرنا آپ کی سیاست کا طریقہ کار رہا ہے، کیا آپ آرمی، انٹیلی جنس اداروں پر مسلسل کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھے ہوئے؟ کیا وزیرآباد واقعہ سے پہلے سے آپ پاک فوج کی قیادت پر مسلسل کیچڑاچھالنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھے ہوئے؟وزیراعظم نے سوال کیا کہ ہر روز دھمکانے، بے بنیاد الزام لگانے کے سوا آپ نے کون سا قانونی طریقہ کار اپنایا ؟ آپ نے وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی تعاون کی پیشکش ٹھکرا دی اور قانونی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا، آپ کو کبھی بھی سچائی کی کھوج میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں بلکہ قابل مذمت واقعےکو آپ نے اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔وزیراعظم نے پوچھا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد شہدا اور مسلح افواج کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم کس کی ایما پر چلائی؟کس جماعت کے ٹرول بریگیڈ نے شہداکا مذاق اڑایا جو ہماری سیاست میں ناقابل تصور اورکلچر میں ایک نئی کم ظرفی کا مظہر تھا، کیا آپ جیسے ایسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے ؟وزیراعظم نے پوچھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو کس نے استعمال کیا؟ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مذہبی اصطلاحات کو کس نے متعارف کرایا؟
اس طرح آپ نے نہایت چالاکی اور ذاتی سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے حامیوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو تشدد کے خطرات سے دوچار کیا؟ کیا آپ کے پارٹی رہنماؤں نے مسجد نبویﷺ کے تقدس واحترام کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاتون وزیر سمیت سرکاری وفد کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک حرکت کی تاویلیں، دلیلیں اور جواز نہیں گھڑے تھے ؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں رہنا چاہیےکہ سابق وزیراعظم کے طورپر کرپشن پر جاری ٹرائل کا سامنا کرتے ہوئے آپ چاہتے ہیں کہ قانونی وسیاسی نظام کو درہم برہم کردیا جائے، آپ کی دانست میں پاکستان جنگل بن چکا ہے تو میرا آپ کو مشورہ ہوگا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ حقائق اکثر تلخ اور تباہ کن ہوتے ہیں، اسے کسی اور دن کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔