کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی انخلا کے بعد طالبان دور حکومت میں پاکستان کی اجازت کے بغیر بھارت افغانستان میں دوبارہ اپنی سفارتی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتا تھا ، افغان طالبان نے جون 2022 میں بھارتی حکومت کو کابل میں دوبارہ سفارتی موجودگی قائم کرنے کے لیے ٹیم بھیجنے کی اجازت دینے سے پہلے پاکستانی فوج سے مشورہ کیا تھا۔
جنگ اخبار میں رفیق مانگٹ کی خبر کے مطابق بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ حسن عباس کی کتاب’’ دی ریٹرن آف دی طالبان‘‘ کے حوالے سے کیا۔حسن عباس اس وقت ایشیا سوسائٹی کے سینئر مشیر اور یو ایس نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیئر ایسٹ ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کے ممتاز پروفیسر ہیں۔ کتاب کے مطابق بھارت نے اگست 2021 میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد،ہرات، قندھار، جلال آباد اور مزار شریف میں اپنے قونصل خانوں کو بند کردیے تھے اورسیکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنے تمام عہدیداروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو کابل سے نکال دیا تھا،گزشتہ سال جون میں، بھارت نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے کابل میں ایک درمیانے درجے کے سفارت کار کی قیادت میں ایک “تکنیکی ٹیم” تعینات کی تھی۔حسن عباس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بھارت سے اپنے سفارت کاروں اور تکنیکی عملے کو واپس بھیجنے کی درخواست کرنے سے پہلےطالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے “تفصیلی ملاقات” کی تھی۔پاکستانی فریق کے اس یقین کے پیش نظر کہ بھارت نے اشرف غنی حکومت کے دور میں کابل تک اپنی رسائی کو افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عباس لکھتے ہیں یہ پاکستان کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا پاکستان نے اس لیے اجازت دی کہ افغانستان میں طالبان کے لیے کچھ امداد کے امکانات کھل سکیں۔ عباس لکھتے ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ اس وقت افغانستان میں چھپے ہوئے ٹی ٹی پی کیڈرز آسانی سے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔