اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریلوے زمینوں کی لیز سے متعلق کیس میں سیکرٹری ریلوے سے دو ہفتوں میں ریلوے زمین کی لیز سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ،رپورٹ میں ریلوے کی زمین کی تمام تفصیلات اور مستقبل کی پلاننگ شامل ہونی چاہیے
جبکہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے نے کہا ہے کہ اربوں ڈالر قرض لیکر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے، ملک میں اربوں ڈالر کا انفرسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اس پر کیا ڈلیوری ہے،اربوں ڈالر کا قرض لینے کی وجہ سے ہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔پیر کو سپریم کورٹ میں ریلوے زمینوں کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا ہے، ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے،اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت متاثر نہیں ہوگی،ریلوے کی زمینوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے،ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کریگا تو لوگ ان پر بیٹھ جائیں گے،ریلوے ٹریک پر رکشہ چھڑنے سے بھی حادثہ پیش آیا،ریلوے لائنز کو موٹروے کی طرح محفوظ کیوں نہیں بنایا جاتا تاکہ کوئی ان پر نہ آ سکے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہاکہ ریلوے کی زمینوں کی فروخت اور لیز کا لائیسنس نہیں دے سکتے ہیں تاہم ریلوے پورا بزنس پلان بنا کر دے تب ہی جائزہ لیں گے. ریلوے اس وقت مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے ملازمین ضرورت سے زیادہ اور پینشنز کا بھی بوجھ ہے. جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریلوے نے کئی قیمتی اراضیاں پانچ سو روپے سالانہ پر سو سال کیلئے لیز پر دے رکھی ہے. ریل گاڑی کے انجن سے ایک موٹر خراب ہوجائے
تو دوسرے ریل گاڑی کا نکال کر لگا لیتے ہیں. کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں. حکومت ریلوے کو پینشن کی مد میں چالیس ارب روپے دیتی ہے اسی طرح پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دئے جارہے ہیں. کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ
ریلوے کے نظام میں بہتری عام آدمی کیلئے بڑی خدمت ہوگی،یہی ریلوے نظام پڑوسی ملک میں چل رہا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں چل سکتا ہے،ریلوے پاکستان کی لائف لائن ہے. عدالت نے کیس کی سماعت 23 جنوری سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کردیا۔