اسلام آباد(این این آئی)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ممکنہ طور پر اس فتے کے آخر میں پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ساتویں اور آٹھویں قسط جاری کرنے کا عمل شروع کرے گا۔ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی موسم گرما کی چھٹیاں 12 اگست کو ختم ہو رہی ہیں لہذا اگر تکنیکی طور پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کو 6 اگست تک سفارشات بھیجی جاتی ہیں
تو بورڈ کا اجلاس 20 اگست سے پہلے ہو سکتا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف نے 2019 میں 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے، توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پر دستخط کیے تھے لیکن ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی (ساتویں اور آٹھویں) اقساط کا اجرا رواں سال کے آغاز میں اس وقت روک دیا گیا تھا جب آئی ایم ایف نے معاہدے کی تعمیل کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ایگزیکٹو بورڈ کی آخری مشاورت رواں سال 2 فروری کو ہوئی تھی، 13 جولائی کو آئی ایم ایف نے ای ایف ایف کے لیے مشترکہ ساتویں اور آٹھویں جائزوں پر عملے کی سطح پر ایک معاہدہ کیا، جسے جاری کرنے سے پہلے بورڈ کو منظور کرنا ہوتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے موسم گرما کی تعطیلات (یکم سے 12 اگست) سے پہلے بورڈ کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی عہدیداروں کو واشنگٹن بھیجا تاکہ فنڈ کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔رواں ہفتے کے اوائل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو ٹیلی فون کیا تھا تاکہ اس پیکیج کے لیے واشنگٹن کی حمایت حاصل کی جائے۔ذرائع نے بتایا کہ پاکستانیوں کو مطلع کیا گیا تھا کہ یکم سے 12 اگست تک چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے بورڈ میٹنگ کا انعقاد ممکن نہیں ہے کیونکہ بہت سے اراکین پہلے ہی چھٹی پر جا چکے ہیں۔ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کرنے کا خواہشمند ہے،
ان کی جانب سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی لیکن اس عمل کو تیز کرنا ممکن نہیں تھا۔ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یہ یقین دہانی حاصل کرے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قسط جاری ہونے کے بعد وہ ملک کو 4 ارب ڈالر کا متوقع قرض دیں گے۔
ایک سینئر سفارتی ذریعے نے بتایا کہ پاکستانیوں نے دونوں دوست ممالک سے یقین دہانی حاصل کی اور ان سے آگاہ کردیا لہذا ہمیں بورڈ کی منظوری میں کوئی مسئلہ نہیں نظر آرہا البتہ دیگر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو خبردار کیا گیا تھا کہ سیاسی صورتحال کو ہاتھ سے باہر نہ جانے دیا جائے،
حکومت کو کہا گیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے سڑکوں پر تشدد اور احتجاج یا پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن معاہدے پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔امریکی میڈیا نے تین روز قبل جنرل باجوہ کی امریکی سفارتی اور فوجی حکام کو کی گئی کالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے
نشاندہی کی تھی کہ ‘پاکستان کی فوج، جس نے اپنی 75 سالہ تاریخ کے نصف سے زائد عرصے تک براہ راست ملک پر حکمرانی کی ہے، اس نے امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور القاعدہ کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باضابطہ اتحادی ہے۔ایک سفارتی ذریعے نے کہا کہ اور کالوں سے مدد ملی ہے
لیکن امریکی بھی آئی ایم ایف کو اس کے طریقہ کار کو روکنے کے لیے قائل نہیں کر سکتے۔پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض کی اشد ضرورت ہے۔ جولائی میں، فنڈ نے کہا تھا کہ اگر اس کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے منظوری دی جاتی ہے تو وہ بیل آؤٹ کی مالیت کو 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کر دے گا۔
ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کی بحالی سے پاکستان کو مدد ملے گی اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ملک کے ساتھ منسلک ہونے کی ترغیب ملے گی۔