اسلام آباد(این این آئی)ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کے خلاف حتمی کارروائی سے روکتے ہوئے آئندہ سماعت پر قانونی نکات پر دلائل طلب کر لئے ،6اپریل کو کیس کی سماعت دوبارہ ہوگی ۔اسلام آباد ہائی ہائی کورٹ میں وزیر اعظم عمران اور وفاقی وزیر اسد عمر کی الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف درخواست پر جسٹس عامر فاروق کیس کی سماعت کی
جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔جسٹس عامر فاروق نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن آرڈیننس کو ختم کرسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے 218(3) کے تحت کوڈ آف کنڈکٹ بنایا تو کیا آرڈیننس کے ذریعے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس نوعیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا۔اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ وزیر اعظم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے غیر جانبدار نہیں رہ سکتا، پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ میں سٹار پرفارمر کو کیسے الگ کیا جا سکتا ہے، ہمارے آئین کی ہر گز یہ اسکیم نہیں، یہ ہو سکتا کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ آپ کسی گورنمنٹ اسکیم کا اعلان نہیں کر سکتے، یا الیکشن کمیشن یہ کہ سکتا ہے کہ کوئی بھی وزیر سرکاری گاڑی استعمال نا کرے، وزیر اعظم نے تحریری ہدایات دی تھیں کہ میں اپنی جیب یا پارٹی اخراجات کروں گا، ہم نے کبھی نہیں سنا نا کبھی ایسا ہوا کہ الیکشن کمیشن کہے کہ وزیراعظم کو سوات جانے سے روک دیا گیا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن ڈیڈی کی طرح ایکٹ کر رہا ہے، ہیڈ آف گورنمنٹ کو نہیں روکا جا سکتا ہیڈ آف اسٹیٹ کو روکا جا سکتا، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو نوٹس اور جرمانہ کر رہا ہے اگلہ مرحلہ نااہلی کا ہے کیسے وہ یہ کر سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ الیکشن کمیشن کو مزید کاروائی سے عارضی طور پر روکا جائے، نوٹس آتا ہے کہ آج منگورہ میں حاضر ہو جائیں وکیل وقت لینے جاتا ہے جرمانہ کردیا جاتا ہے، پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ میں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آصف علی زرداری صدر مملکت تھے تو لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا انہیں پارٹی عہدہ چھوڑنا ہوگا، صدر اور گورنرز پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتے وہ نیوٹرل ہوتے ہیں،
قوم کے ٹیکس سے پیسے سے کوئی بھی جماعت اپنی مہم نہیں چلا سکتی، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنی جماعتوں کے ایکٹو رکن ہوتے ہیں، وزیراعظم کا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوات جارہے ہیں تو الیکشن کمیشن فوری کہتا وہاں نہ جاؤ، الیکشن کمیشن ڈیڈی کی طرح ایکٹ کررہا ہے، خان صاحب نہ تو سیاسی جماعت ہیں نہ امیدوار مگر انہیں صبح شام نوٹس مل رہے ہیں، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو جرمانے کررہا ہے،
اگلا مرحلہ نااہلی کا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی نااہلی کے لیے نوٹس جاری کردیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک ایسا کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن روز دو تین نوٹس وزیراعظم کو ملتے ہیں، منگورہ میں صبح نوٹس کرتے ہیں اور کہتے ہیں شام کو پیش ہوجائیں، الیکشن کمیشن اس نتیجے پر کیسے پہنچا کہ آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا،
الیکشن کمیشن نے سننا بھی ضروری نہیں سمجھا اور آرڈیننس کا آپریشن معطل کردیا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ آرڈیننس کے ذریعے وزیر اعظم اور پبلک آفس ہولڈرز کو انتخابی مہم میں حصہ کی اجازت دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ آرڈیننس کے ذریعے اجازت دی گئی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کوڈ آف کنڈکٹ میں کس قانون کے تحت ترمیم کی،
یہ بھی بتا دیں الیکشن کمیشن نے ترمیم سے پہلے کوڈ آف کنڈکٹ کس قانون کے تحت بنایا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو جواب دیا کہ الیکشن ضابطہ اخلاق کے تحت ہوتا ہے، صدر، وزیراعظم، چیرمین سینیٹ، سپیکرز، وزراء انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے، پبلک آفس ہولڈر اپنے متعلقہ حلقے میں جاسکتا ہے مگر انتخابی مہم میں۔ حصہ نہیں لے سکتا۔
عدالت نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس نہیں دیا، الیکشن کمیشن کو واضح ہونا چاہیے کہ کس قانون کی خلاف ورزی پر وہ نوٹس کر رہے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا نوٹس برقرار رہ سکتا ہے یا نہیں یہ بھی دیکھنا ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو مؤقف پیش کیا کہ انتخابی مہم میں ہیلی کاپٹر اور حکومتی مشنری استعمال ہو رہی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر قومی خزانے سے انتخابی مہم چلائی جائے تو اس کے بھی اثرات ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسٹیٹ مشنری کا الیکشن کمیشن نے لکھا ہوا ہے کہ آپ نے استعمال کی ہے، اب آپ نے اسٹیٹ مشنری استعمال کی ہے یا نہیں پٹشنر اس کا جواب الیکشن کمیشن کو دے دیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہاں ایک سال پہلے سے ویڈیوز سامنے آئیں
وہ کیس الیکشن کمیشن میں ایک انچ آگے نہیں بڑھا، اور یہاں ایک دن پہلے نوٹس جاتا ہے اگلے دن کاروائی ہو جاتی ہے۔عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہے کہ کسی کی سائیڈ لے رہے ہیں غیر جانبداری نظر آنی چاہیے۔ عدالت نے حکم دیا کہ وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کیخلاف حتمی کارروائی نہ کریں،
الیکشن کمیشن کو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نظر آئے تو نوٹس جاری کرے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کے پی کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر قانونی نکات پر دلائل طلب کرلئے، اور 6اپریل کو کیس سماعت کے لیے دوبارہ مقرر کردیا۔