اسلام آباد(آن لائن)عدالتی کارروائی کی براہ راست کوریج سے متعلق جسٹس قاضی فائز کی درخواست پر وفاقی حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں مخالفت کر دی،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہمیں نہ بتائے ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ
نے کی۔سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے براہ راست کارروائی کی کوریج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو نقطہ مرکزی کیس میں نہ اٹھایا گیا ہے و وہ نظرثانی کیس میں نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے،کسی صحافی یا صحافتی تنظیم کی طرف سے براہ راست کوریج کی کوئی درخواست نہیں دی گئی،براہ راست کوریج کی اجازت دینا پالیسی کا معاملہ ہے۔ اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے،ہم ویڈیو لنک کی ٹیکنالوجی استعمال کرکے بلوچستان اور کے پی کے وکلاء کو اسلام آباد میں بیٹھ کر سنتے ہیں،براہ راست کوریج دینے یا نہ دینے کا خالصتاً اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، وفاقی حکومت سپریم کورٹ یہ نہیں کہہ سکتی ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا،آپ کا کام صرف معاونت کرنا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیاوفاقی حکومت کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ جوڈیشل اختیار نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا انتظامی اختیار ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کو براہ راست کوریج کا اختیار نہیں تو کسی سائل کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بتائے سپریم کورٹ نے کیا کرنا ہے، عدالت میں گنجائش کم ہونے کی صورت میں کیا سپریم کورٹ دیگر کمرہ عدالتوں میں براہ
راست کوریج کا بندوبست کر سکتی ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت پوری دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے،گوادر میں بیٹھے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کمرہ عدالت کی کوریج سن اور دیکھ سکے، پاکستان کے دور
دراز علاقے میں رہنا والا پاکستانی مالی مشکلات کے سبب سپریم کورٹ نہیں آ سکتا، ہم نے اپنا سر زمین میں دبایا ہوا ہے کہ جو چل رہا ہے ایسے ہی چلے گا، نہ آپ کے پاس ایسا راز ہے نہ ہمارے پاس کوئی ایسا راز ہے جس کی ممانعت ہو،اگر کسی جج کی طرف سے بدتمیزی کی گئی ہو تو وہ بھی پبلک ہونی چاہیے،اگر کسی وکیل یا سرکاری
وکیل کی طرف سے بد تمیزی ہو تو وہ بھی پبلک ہونی چاہیے، عوام کو عدالتی فیصلوں پر رائے دینے کا حق ہونا چاہیے،ہم کیوں چھپ رہے ہیں کیا وجوہات ہیں،سب کچھ پبلک ہونا چاہیے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آکر کہا کہ حکومت میڈیا کو دبا رہی ہے، پہلے حکومت نے میڈیا کو تباہ کردیا ہے اب یو ٹیوب کے پیچھے پڑ جائیں
گے،مجھے کھلے عام بد نام کیا جا رہا ہے،کنٹرول میڈیا کے ذریعے میرے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،اگر کوریج براہ ہو تو سب دیکھیں گے کہ کیا حق ہے اور کیا سچ ہے، یہ حق اور سچ سے ڈرتے ہیں،یہ سچ سے خوف زدہ ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میں آپ سے پرائیویٹ نہیں مل سکتا،پرائیویٹ مل کر میں آپ کو بتاتا آپ کو بھرپور کوریج مل رہی ہے، بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت سترہ مارچ تک ملتوی کردی ہے۔