لاہور( این این آئی،مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ میں کھوکھر پیلس کی دیوار گرانے کے خلاف کیس کی سماعت ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ مسماری کا حکم کس نے دیا؟ جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ 18 جنوری کے عدالتی حکم پر
کارروائی کی گئی، ڈی سی نے 23 جنوری کو حکم دیا۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کس تاریخ کو مسماری کی گئی؟ 24 جنوری کو مسماری کی گئی۔ اس حکم میں تو ڈی سی نے غیرقانونی قبضہ لینے کا حکم دیا تھا۔ نوٹس کے بغیر کس قانون کے تحت کھوکھر ہائوس مسمار کیا گیا؟ بظاہر لگتا ہے بائی لاز پرعملدرآمد نہ ہونے پر کارروائی کی گئی۔ پورے موضع کی اشتمال نہ ہو تو کیا انفرادی طور پر ہوسکتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کہا کہ کہتے ہیں تگڑے بندے کا کوئی ہمسایہ بھی نہ ہو، اور کچھ مانگے نہ مانگے زمین تو مانگ لے گا۔چیف جسٹس محمد قاسم خان کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جس کے بعد عدالت نے حکم امتناعی تک مزید کارروائی سے روک دیا۔دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ نے گرین لینڈ ایریاز میں ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر کیخلاف دائر درخواست پر پنجاب حکومت اور ایل ڈی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 28جنوری تک ملتوی کر
دی جبکہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہمارے ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہے،بادی النظر میں ایل ڈی اے کی نالائقوں کی وجہ سے ان سوسائٹیز میں لاکھوں گھر بن چکے ہیں ۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے شہری
مبشر الماس کی درخواست پر سماعت کی ۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تفصیلی رپورٹ پیش کریں کہ کس نے کیا کیا ہے ،ایل ڈی اے کا بجٹ اربوں روپے ہے مگر اس کی کارکردگی صفر ہے ،سب ذمہ دار افسروں اور ڈی جی نیب کو بلائوں گا اور یہیں سے سیدھے جیل جائیں گے۔ چیف جسٹس
نے کہا کہ سب ذمہ دار ہیں، سارے شہر کا حسن تباہ کردیا گیا، بڑے اورپرانے درخت اکھاڑ دیئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اب تک رہنے والے تمام ڈی جی ایل ڈی ایز اور متعلقہ افسروں کے ناموں کی فہرست چاہیے۔چیف جسٹس قاسم خان عدالت نے ایل ڈی اے کی جانب سے
غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف کی جانے والی کاروائیوںکی رپورٹ بھی طلب کرلی ۔ فاضل عدالت نے عدالتوں سے حکم امتناعی لینے والی سوسائٹیز کے نام بھی طلب کر لیے ۔چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہے۔دوران سماعت
ایل ڈی اے کے وکیل نے گرین لینڈایریازپر قائم غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کی فہرست فراہم کر تے ہوئے آگاہ کیا کہ ایسی تمام ہائوسنگ سوسائٹیز کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں،ان سوسائٹیز کو بجلی،پانی اور گیس کے کنکشن دینے سے روک دیا گیا ہے ،ان سوسائٹیز کی اراضی کی
خرید و فروخت پر پابندی لگا دی ہے ۔ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ غیر قانونی سوسائٹیز سے ایک ارب کے واٹر چارجز وصول کئے گئے ہیں ،حکومت کی ایما ء پر ایسی سوسائٹیز کے لیے ایمنسٹی سکیم متعارف کروا دی گئی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا سیاسی لوگوں کی بھی
ہائوسنگ سوسائٹیز ہیں۔ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ پاک عرب ولا زبھی ایک سیاستدان کی ہے ، سینئر صوبائی وزیر کی بھی ہائوسنگ سوسائٹی ہے،یہ ہائوسنگ سوسائٹی ساڑھے تین ہزار کنال پر محیط ہے ۔عدالت نے گرین لینڈ ایریاپر قائم غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کے بارے
تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کی مہلت دے رکھی ہے ،قانون کے تحت گرین بلٹ پر ہائوسنگ سوسائٹیز نہیںبن سکتیں ۔بادی النظر میں ایل ڈی اے کی نالائقوں کی وجہ سے ان سوسائٹیز میں لاکھوں گھر بن چکے ہیں ۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ لاہور ڈویژن میں 241 ہایوسنگ سوسائٹیزگرین لینڈ
ایریاز کی خلاف ورزی کر رہی ہیں ۔ فاضل عدالت نے کہا کہ جب عدالت نے ان سوسائٹیز کے خلاف حکم امتناعی دے رکھا ہو تو ایسے میں یہ کیسے کام کر سکتی ہیں ۔ایل ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ کئی سوسائٹیز ایل ڈی اے قانون کی پاسداری کے تحت کام کر رہی ہیں ۔ درخواست گزار
کے وکیل نے موقف اپنایا کہ فاضل عدالت ایل ڈی اے سے وضاحت طلب کرے کہ ان کے افسر کتنے کتنے سالوں سے سیٹوں پر براجمان ہیں ،زیادہ تر افسران ایل ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر طویل عرصے سے تعینات ہیں ،ڈیپوٹیشن پر تعینات افسروں کے دور میں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی گئی ہیں ۔