اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے واضح الفاظ میں اپنے دور کے ان چند تنازعات سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے جن پر طویل عرصہ سے بحث جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایسے تنازعات میں کوئی کردار نہیں رہا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر
کے مطاق سابق چیف جسٹس سے رابطہ کیا گیاتاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا سابق وزیراعظم نواز شریف کے کیس کے معاملے میں تحقیقات کرنے والی ٹیم تشکیل دینے یا احتساب عدالت کے جس جج نے نواز شریف کو سزا سنائی تھی ان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے میں چیف جسٹس پاکستان نے کوئی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک نامعلوم کالر نے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا تاکہ کوئی پتہ نہ لگا سکے اور خود کو سپریم کورٹ کا رجسٹرار ظاہر کیا۔ انہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے مخصوص نام شامل کرنے کا کہا، یہ نام جے آئی ٹی کی صورت میں سپریم کورٹ میں پیش کیے جانا تھے۔ ریٹائرڈ جج کا کہنا تھا کہ پاناما جے آئی ٹی بنوانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ جے آئی ٹی اس اخبار میں خبر کی اشاعت کے بعد متنازع ہو گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان نے اصرار کیا کہ انہوں نے کبھی رجسٹرار سے واٹس ایپ کال کرنے کو نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ پاناما کیس میں عملدرآمد بینچ کے متعلق تھا۔ انہوں نے کہا ”مجھے نہیں معلوم کہ رجسٹرار نے ایسا کیوں کیا۔“ سابق چیف جسٹس پاکستان سے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے حوالے سے بھی سوال کیا گیا۔ ارشد ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے ویڈیو /آڈیو
بیان (جو شریف فیملی کے پاس موجود ہے) میں الزام عائد کیا ہے کہ ان پر سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے دباؤ ڈالا تھا کہ نواز شریف کو 14 سال قید کی سزا سنائی جائے۔ ثاقب نثار نے کہا کہ پوری زندگی میں ان کی ارشد ملک سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے
کبھی ان سے ملاقات کی اور نہ ہی چیمبر میں بلا کر ان سے کہا کہ نواز شریف کو 14 سال کی سزا سناؤ۔ ارشد ملک کے حوالے سے تنازع گزشتہ سال اس وقت ایک پریس کانفرنس کے دوران سامنے آیا جب نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو جاری کی جس میں
ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ناصر بٹ نامی شخص اور جج کے درمیان ہونے والی بات چیت ہے۔ ناصر بٹ نواز شریف کے وفادار چاہنے والے ہیں۔ یہ بات چیت دسمبر 2018ء کی ہے جب نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ کیس میں انہیں
بری کیا گیا تھا۔ مریم نے الزام عائد کیا تھا کہ جج نے ناصر بٹ سے رابطہ کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ انہیں ندامت ہے اور رات کو خواب آتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ نا انصافی کی ہے، اسلئے انہوں نے ناصر بٹ کو اپنی رہائش گاہ پر بات چیت کیلئے بلایا جہاں یہ ویڈیو ریکارڈ کی گئی تھی۔ میڈیا کے
سامنے جاری کی گئی ویڈیو میں جج کو اعتراف کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں بلیک میل کیا گیا اور دباؤ ڈال کر نون لیگ کے قائد کیخلاف فیصلہ سنوایا گیا۔ 30 مئی 2017ء کو ”واٹس ایپ کالر کی کہانی اور پاناما جے آئی ٹی“ کے عنوان سے ایک خبر شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک اور
ایس ای سی پی سے کہا گیا تھا کہ وہ جے آئی ٹی کیلئے عامر عزیز اور بلال رسول کے نام دیں۔ فون کال کرنے والے نے نیب سے عرفان نعیم منگی کا نام بھی بتایا تھا۔ شروع میں پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تمام متعلقہ محکموں ایف آئی اے، آئی ایس آئی، ایم آئی، ایس بی پی، ایس ای سی پی
اور نیب نے جے آئی ٹی قائم کر نے کے لئے اپنے افسران کے نام پیش کر دئے تھے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایس ای سی پی، ایس بی پی اور نیب سے اضافی نام مانگے۔ یہی وہ وقت تھا جب مشکوک فون کالر نے ان اداروں کے سربراہان سے رابطہ کیا۔ نیب نے اپنے نظر ثانی شدہ پینل میں عرفان منگی کو شامل کیا لیکن ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نظر انداز کیا تاہم بعد ازاں دونوں کو جے آئی ٹی میں شامل کرلیا گیا۔